جو پاکستانی اس وقت کم از کم 60 برس کے ہیں انہیں شاید یاد ہو کہ 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے داخل ہونے سے لگ بھگ ایک ماہ قبل سرکاری خبرنامے کی اولین سرخی یہ ہوا کرتی تھی کہ امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کو خلیجِ بنگال جانے کا حکم ملا ہے، اب وہ آبنائے ملاکا پار کر رہا ہے، آج وہ انڈیمان کے نزدیک سے گذر رہا ہے، اس وقت وہ خلیج بنگال سے ڈیڑھ سو ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے، اب خلیج بنگال کے دہانے تک پہنچ گیا ہے اور اب اب اب اب وہ مشرقی پاکستان میں پھنسے امریکی باشندوں کو نکالنے کے بعد غالباً واپس جا رہا ہے۔
جیسے جیسے ساتواں بحری بیڑہ خلیج بنگال سے دور تر ہوتا چلا گیا ویسے ویسے یحیٰی حکومت اور پھر ہم مغربی پاکستانیوں کی آخری امیدیں بھی دھند میں لپٹتی چلی گئیں۔بعد میں کیا بیتی؟ آپ تو جانتے ہیں۔
آج مجھے یہ منظر یوں یاد آ رہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق اب ہمارے زرِمبادلہ کا ذخیرہ پچھلے 12 ماہ کے دوران 16.5 بلین ڈالر سے گھٹتے گھٹتے 5.5 بلین ڈالر تک آن لگا ہے۔ یعنی ریاستی بینک کی تحویل میں جو ڈالر باقی ہیں ان سے بمشکل تین ہفتے کی برآمدات منگوائی جا سکتی ہیں۔کہنے کو نجی بینکوں کی تحویل میں بھی 5.8 بلین ڈالر پڑے ہیں مگر وہ نجی کھاتے داروں کی امانت ہیں۔تاوقتیکہ وفاقی حکومت 1998ء کی طرح معاشی ایمرجنسی نافذ کر کے انہیں اپنی نگرانی میں لے کر پاکستانی روپے سے نہ بدل دے۔
بظاہر ایک امریکی ڈالر کی سرکاری قیمت آج کی تاریخ میں 228 روپے تک جا پہنچی ہے مگر کھلی مارکیٹ میں یہ 235 روپے میں بھی مل جائے تو بڑی بات ہے۔ جبکہ افغان فری ٹریڈ اور اسمگلنگ کے ذریعے روزانہ تقریباً تین ملین ڈالر سرحد پار جا رہے ہیں جہاں فی ڈالر 275 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس شرحِ منافع کے ہوتے ڈالر کی سرحد پار اسمگلنگ روکنا تقریباً ناممکن ہے۔
دوسری جانب بیرونِ ملک سے زرِمبادلہ کی مسلسل ترسیل کے ضامن سمندر پار پاکستانیوں نے بھی معاشی بے یقینی کے ہاتھوں اپنا ہاتھ کھینچ کے رکھا ہوا ہے۔ اب اوسطاً تین ارب ڈالر ماہانہ کے بجائے دو ارب ڈالر پاکستان پہنچ رہے ہیں اور ان میں سے بھی بہت سے ڈالر بینکنگ چینلز کے بجائے ہنڈی کے ذریعے آ رہے ہیں۔ اس کا سبب بینکوں کے ایکسچینج ریٹ اور کھلی مارکیٹ کے ریٹ میں تیزی سے بڑھتا ہوا فرق ہے۔
نجی بینکوں کو چونکہ کھاتے داروں کو دینے کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈالرز مہنگے داموں خریدنا پڑ رہے ہیں لہذا وہ اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ لازمی درآمدی اشیا کی فہرست کے مطابق لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے کی اجازت کے باوجود ایل سی کے ضمانتی بننے سے انکاری ہیں۔
چنانچہ اس وقت کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں پر بیرونِ ملک سے آنے والے مال کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ کسٹمز گوداموں میں 358,000 ٹن خوردنی تیل ایل سیز کے کلیئر ہونے کا منتظر ہے۔ گودام اور ایل سی کی تاخیر کے چارجز روزانہ کے حساب سے مال منگوانے والے پر پڑ رہے ہیں۔جبکہ پونے دو لاکھ ٹن خوردنی تیل سے لدے 10 جہاز پورٹ کے باہر کئی دن سے کلیئرنس نہ ملنے کے سبب کھڑے ہیں۔
لہٰذا ملک میں خوردنی تیل کی قلت اور قیمت کا بحران سر پے ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات کا 90 فیصد خوردنی تیل باہر سے منگواتا ہے۔
وسعت اللہ خان کے مزید کالم
غیر سیاسی ہونا بچوں کا کھیل نہیں
یہی حالات صنعتی مشینری کی امپورٹ کو بھی درپیش ہیں۔روپے کی گراوٹ کے سبب اندرونِ ملک منڈی بھی سکڑ رہی ہے۔زرعی آلات بنانے والے سب سے بڑے مقامی ادارے ملت ٹریکٹرز نے چھ جنوری سے ٹریکٹرز کی پیداوار غیر معینہ مدت کے لیے روک دی ہے کیونکہ مانگ میں خاصی کمی ہوئی ہے اور یوں کمپنی مالی بحران کی لپیٹ میں ہے جبکہ ٹریکٹرز اور فاضل پرزے بنانے والے یونٹوں کو ملنے والا آٹھ ارب روپے کا ٹیکس ریبیٹ بھی گزشتہ دو برس سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو، بےباق کرنے سے معذور ہے۔
کاروں اور موٹر سائیکلوں کی پیداوار میں بھی انہی مشکلات کے سبب کمی ہوئی ہے۔ نشاط، کریسنٹ اور سرتاج جیسے بڑے صنعتی گروپس نے اپنی ٹیکسٹائل کی پیداوار میں کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے پہلے سے موجودہ لاکھوں بے روزگاروں میں مزید چند لاکھ کا اضافہ۔
چونکہ اقتصادی بحران عارضی اقدامات اور سرسری علاج سے ٹھیک ہوتا نظر نہیں آ رہا اور پہلے سے حاصل قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضوں کی بھاگ دوڑ جاری ہے، لہٰذا جس جس کا بس چل رہا ہے بیرونِ ملک جانے کے خواب پہلے سے زیادہ دیکھ رہا ہے۔
ریاستی قسمت پر قابض فیصلہ ساز اشرافیہ نے تو اپنا اور اہلِ خانہ کے مالی و رہائشی مستقبل کا بندوبست بہت پہلے سے خلیجی ریاستوں، یورپ اور شمالی امریکہ میں کر لیا ہے۔ اب بڑے بڑے صنعت کار اور تاجر بھی اپنا ٹین تپڑ رفتہ رفتہ بیرونِ ملک منتقل کر رہے ہیں۔
مہنگائی کا اشاریہ سالانہ کی حدیں پار کر کے ماہانہ سے ہوتا ہوا ہفتہ وار کی حدود میں ڈبل ہندسے کے ساتھ گھس چکا ہے۔ دو برس پہلے 100 روپے کی جو قوتِ خرید تھی اب وہ 40 سے 50 روپے کے برابر رہ گئی ہے۔ لاکھوں پنشن یافتہ ان حالات میں سب سے زیادہ پریشان ہیں۔مڈل کلاس کس منہ سے کہے کہ اب وہ عملاً لوئر مڈل کلاس بن چکی ہے جو بمشکل بچوں کی تعلیمی فیس، دوا دارو اور روزمرہ دال سبزی کے اخراجات پورا ہونے پر ہی شکر مند ہے۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ساری خدائی ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف۔نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار المعروف وزیرِ خزانہ اور برادرِ خورد شہباز شریف المعروف وزیرِ اعظم روزانہ تسلی دے رہے ہیں۔گھبرانا نہیں ہے۔ دوست ملکوں سے امداد بس آیا چاہتی ہے۔آئی ایم ایف کے پیکیج کی نویں قسط بس آج کل میں ملنے والی ہے (گویا جب اگست میں آٹھویں قسط ملی تھی تو دودھ کی نہریں بہہ نکلی تھیں)۔
اب شاید آپ کو احساس ہو کہ میں 52 برس پہلے خلیج بنگال پہنچنے والے ساتویں امریکی بحری بیڑے کو کیوں یاد کر رہا ہوں۔