1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: ’ہم اب تک سماجی انصاف حاصل نہ کر سکے‘

11 دسمبر 2012

افغانستان کو بہت سے امتحانات کا سامنا ہے مگر ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغانستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن سیما ثمر کا کہنا ہے کہ افغان عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق سے دست بردار نہیں ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/16zlH
Foto: Oliver Lang/dapd
تصویر: dapd

ڈی ڈبلیو: آپ نے انسانی حقوق کا کارکن بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا کسی خاص واقعے نے آپ کو یہ پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کیا؟

سیما ثمر: بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ مجھے افغانستان میں ایک لڑکی ہونے کے باعث امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور ساتھ ہی اپنی قومیت کے حوالے سے بھی۔ اس صورت حال نے مجھے سماجی انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور کیا۔ اس جنگ میں ہم نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں اور عزیزوں کو ہارا ہے۔ ہم افغانستان میں اب تک سماجی انصاف حاصل نہیں کر سکے۔ ابھی ہمیں مزید کام کرنا ہے۔


سن دو ہزار دو سے آپ افغانستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہ ہیں۔ اس وجہ سے خود آپ کی زندگی کو بھی خطرہ ہے۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کس طرح اس خطرے سے نبرد آزما ہوتے ہیں؟ آپ کو کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

(AP Photo/Dusan Vranic)
ثمر نے اپنی زندگی انسانی حقوق کی سر بلندی کے لیے وقف کر رکھی ہےتصویر: AP

میں نے یہ منصب سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو بد قسمتی سے میرے خاندان والوں کو میرے اس فیصلے سے منسلک خطرات بھی قبول کرنا پڑے۔ میں سمجھتی ہوں کہ افغانستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کا قیام ایک بڑی بات ہے۔ یہ ایک غیر معمولی ادارہ ہے اور اس نوعیت کا کوئی دوسرا ادارے پورے خطے میں نہیں ہے۔

انسانی حقوق کے ایک کارکن کی حیثیت سے آپ کی سب سے بڑی کامیابی اور سب سے بڑی ناکامی کیا رہی؟

عدم تحفظ، عدم انصاف اور عدم احتساب افغانستان کے اہم مسائل ہیں۔ اس کے علاوہ سزا سے بچ جانے کا کلچر افغانستان میں انسانی حقوق اور انصاف کے فروغ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

آپ نے افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کا دور بھی دیکھا ہے۔ اس دوران آپ کے خاندان کے کئی افراد غائب کر دیے گئے تھے۔ روسیوں کے انخلاء کے بعد آپ نے طالبان کا سخت گیر اسلامی دور دیکھا۔ ایک عورت کی حیثیت سے آپ ان ادوار کو کیسے دیکھتی ہیں؟

تیس چالیس برسوں کے دوران افغانستان نے کئی حکومتیں اور انسانی حقوق کی کئی طرح کی پامالیاں دیکھی ہیں۔ بد قسمتی سے یہ پامالیاں اب بھی جاری ہیں۔ مثال کے طور پر، گزشتہ ہفتے ایک لڑکی کو اس لیے غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا کہ وہ ویکسین کے استعمال کی تشہیر کر رہی تھی۔ اس ضمن میں احتساب کی کمی ہے۔ ہم اس بارے میں کوئی سخت قدم نہیں اٹھا رہے۔

آپ ان دو خواتین میں سے ہیں جو سن دو ہزار ایک اور دو ہزار دو کے درمیان عبوری حکومت کا حصہ تھیں۔ آپ نے افغانستان میں پہلی مرتبہ خواتین کی وزارت قائم کی۔ آپ فلاحی کام بھی کرتی ہیں۔ یہ تو بہت وقت طلب کام ہے۔ کیا اس سے آپ کی نجی زندگی متاثر نہیں ہوتی؟

میں بے حد مصروف ہوں اور میری نجی زندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر یہ زندگی میں نے خود چنی ہے لہٰذا مجھے شکایت کرنے کا حق نہیں ہے۔


افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء سن دو ہزار چودہ تک مکمل ہو جائے گا۔ یہ صورت حال آپ کے کام کے حوالے سے کیا معنی رکھتی ہے۔ کیا آپ فکر مند ہیں؟

نہیں۔ بلکہ میں خاصی پر امید ہوں اور مجھے ایسے امکانات دکھائی دے رہے ہیں کہ افغانستان انیس سو نوے کی صورت حال سے دوچار نہیں ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغان عوام طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کو دیکھ چکے ہیں اور اب وہ ان پر اعتماد نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ، افغانستان کی نئی نسل کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں۔ اب افغانستان میں ایک آزاد میڈیا بھی ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان کے قبائلی جنگجو اب آپس میں مزید لڑنا نہیں چاہتے۔ دوسری جانب پاکستان، جس نے انیس سو نوے کی دہائی میں طالبان کی حمایت کی تھی، اب ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت تبدیل ہو چکا ہے اور بین الاقوامی برادری بھی افغانستان کو انیس سو نوے والی صورت حال میں نہیں چھوڑے گی۔

ثمر سن دو ہزار ایک سے دو ہزار تین تک افغانستان کی وزارت برائے خواتین کی پہلی وزیر تھیں۔ وہ اس وقت افغانستان کے غیر جانبدار انسانی حقوق کے کمیشن کی چیئر پرسن ہیں۔ ان کو سن دو ہزار بارہ میں ’رائٹ لائولی ہڈ ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔

Afghanistan Dr. Sima Samar Human Rights Commission
ثمر اکتوبر دو ہزار بارہ کو کابل میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: DW

رپورٹ: نیل کِنگ ⁄ shs

ادارت: ناومی کانریڈ ⁄ ia

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید