1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا جائے؟

ڈومنگوئیز گابریئل/ کشور مصطفیٰ21 مارچ 2014

افغانستان سے امریکی فوج کی مکمل واپسی کے امکانات کے تناظر میں اس قسم کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے کہ یہ ملک مستقبل میں ایک بار پھر طوائف الملوکی کا شکار ہوگا۔

https://p.dw.com/p/1BTFg
Zum Thema - hohe Verluste afghanischer Sicherheitskräfte alarmieren die Nato
تصویر: Getty Images/Afp/Rahmatullah Alizada

ڈوئچے ویلے کے ماہرین نے 2014 ء کے بعد افغانستان کی قومی سلامتی کی صورتحال پر اثر انداز ہونے والے عناصر کا جائزہ پیش کیا ہے۔

افغانستان کے بحران کو بارہ سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد رواں سال یعنی 2014 ء میں یہ ملک ایک نازک اور گھمبیر صورتحال کا شکار ہے۔ اس سال وہاں سے بین الاقوامی فوج کا انخلاء عمل میں لایا جائے گا جس کے بعد حالات میں مزید خرابی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ امریکا مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ ایک طویل المیعاد معاہدہ طے پا جائے جس کے تحت 10 ہزار فوجیوں پر مشتمل بقایا امریکی فورس افغانستان میں موجود رہے۔

اس ملٹری فورس میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ممبر ممالک کے فوجی دستے بھی شامل ہوں گے اور اس کی اولین ذمہ داری انسداد دہشت گردی آپریشنز کرنا اور افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مدد کا مشن جاری رکھنا ہوگا۔

دوہزار پانچ سو قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک گرینڈ اسمبلی یا افغان لویہ جرگہ کی توثیق کے باوجود یہ موضوع واشنگٹن اور کابل کے مابین تلخ کشیدگی کا سبب بن گیا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی اس باہمی سکیورٹی معاہدے BSA پر دستخط سے یہ کہہ کر انکار کر چُکے ہیں کہ 5 اپریل کے مجوزہ صدارتی انتخابات کے بعد منتخب ہونے والا نیا افغان صدر یا ان کا جانشین اس معاہدے کو حتمی شکل دے گا۔

2001 ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کے صدارتی منصب پر فائز ہونے والے حامد کر زئی جو دو بار ملکی صدر بننے کے بعد اس بار کے مجوزہ انتخابات میں آئینی رو سے تیسری صدارتی مدت کے لیے الیکشن نہیں لڑ سکتے، کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط اور اُس کے نتائج سے نمٹنے کا انحصار آئندہ حکومت پر ہوگا۔ تاہم یہ امر بالکل واضح نہیں ہے کہ صدارتی انتخابات کے 11 امیدواروں میں سے کوئی ایک بھی جنگ سے تباہ حال اپنے ملک میں غیر ملکی فوج کی موجودگی سے متعلق معاہدے کی طرف مائل ہوگا۔

Symbolbild ISAF Soldat
بین الاقوامی فوج کا انخلاء عمل میں لایا جائے گا جس کے بعد حالات میں مزید خرابی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہےتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/GettyImages

واشنگٹن کا ’زیرو آپشن‘

افغان لیڈروں کی طرف سے معاہدے پر دستخط سے انکار، طالبان کے ساتھ ان کے خفیہ مذاکرات، طالبان کے امریکا مخالف بیانات اور کابل حکومت کی طرف سے امریکا اور افغان باشندوں کے خلاف سنگین جرائم کے مرتکب 65 قیدیوں کی رہائی کے اعلان نے واشنگٹن اور اُس کے اتحادیوں کو سخت ناراض کر دیا ہے۔ اس کے رد عمل میں امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی انتظامیہ کو سال رواں کے آخر تک افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کی منصوبہ بندی کا حکم دے دیا، اسے ’ زیرو آپشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ یعنی فروری کی 25 تاریخ کو اوباما نے کرزئی کے ساتھ بذریعہ ٹیلی فون بات چیت کی تھی اور کہا تھا کہ افغانستان کی طرف سے معاہدے پر دستخط کا معاملہ جتنا طول کھنچے گا امریکی بقایا فورس میں شامل فوجیوں کی تعداد اتنی کم ہوتی جائے گی۔

تاہم معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کا سنگین نتیجہ یہ نکلے گا کہ افغان سکیورٹی فورسز کی سالانہ امداد کے لیے مطلوبہ قریب چار بلین امریکی ڈالر کا ایک بڑا حصہ امریکا ادا نہیں کرے گا۔ واشنگٹن کے رد عمل کے اثر میں نیٹو کے سکریٹری جنرل آندرس فوگس راسموسن نے بھی کہہ دیا کہ معاہدے کی ناکامی کا مطلب یہ ہوگا کہ افغانستان متعینہ تمام اتحادی فوج بشمول فوجی ساز وسامان اس سال دسمبر تک ملک سے نکل جائے گی۔

Afghanistan Anschlag Faryab 18.03.2014
طالبان کے حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہےتصویر: Reuters

تباہی کا نسخہ

افغانستان کی پولیس اور فوج کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی طالبان کے خلاف جنگ کی مہارت اور صلاحیتوں میں واضح ترقی ہوئی ہے تاہم ملک گیر سطح پر لا اینڈ آرڈر کے نفاذ کے لیے ان کی صلاحیتوں کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور سے گزشتہ مہینوں کے دوران عسکریت پسندوں کی طرف سے حملوں میں اضافے کے ضمن میں۔

اقوام متحدہ کے مطابق 2013 ء میں افغانستان میں شہری ہلاکتوں میں 14 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، اس طرح افغانستان کی 12 سالہ خانہ جنگی کے دوران 2013 ء کو خونریز ترین سال قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نیٹو کے آئی سیف مشن کی طرف سے مقامی فورسز کو ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری سونپے جانے کے بعد افغان پولیس افسروں کی ہلاکتوں میں دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

واشنگٹن میں قائم ’ ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز‘ سے منسلک جنوبی ایشیائی امور کے ایک ماہر میشائل کوگلمن کا کہنا ہے،" افغانستان کی خستہ حال سکیورٹی فورسز کا ایک بڑا حصہ شدید مشکلات سے دوچار ہے جس کی وجہ ان اہلکاروں کی منشیات کے استعمال کی عادت، ناخواندگی، فرائض سے غفلت اور جنگی صلاحیتوں کا فقدان۔ ایسی سکیورٹی فورسز کو دنیا کے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقوں میں سے ایک کی سلامتی کے ابتر ماحول کا سامنا ہے۔ افغانستان اور دنیا بھر میں اُس کے اتحادیوں کی طرف سے چاہے افغانستان کے بحران کو کتنا بھی بہتر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جائے یہ ایک بڑی تباہی کی نشاندہی ہے" ۔

طالبان اور القاعدہ

افغانستان کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ اب بھی طالبان سے ہے۔ میشائل کوگلمن کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی فورسز کی عدم موجودگی یا اچانک غائب ہوجانے کی صورت میں عسکریت پسندوں کے پاس دو متبادل موجود ہیں۔ ایک یہ کہ وہ افغان حکومت کو ایک معاہدے پر مجبور کریں جس کے تحت طالبان کو حکومت میں کسی حد تک اثرورسوخ حاصل ہو جبکہ دوسرے آپشن کے امکانات زیادہ ہیں اور وہ یہ ہے کہ عسکریت پسند حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اپنی جدوجہد میں شدت لائیں۔ اس کے لیے وہ اپنے اتحادیوں، مثال کے طور پر حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور ممکنہ طور پر پاکستانی طالبان کا تعاون حاصل کر سکتے ہیں" ۔

Symbolbild - Wirtschaftsbeziehungen Afghanistan Indien
بھارت افغانستان میں اپنے اسٹریٹیجک مفادات کی بھرپور حفاظت کر رہا ہےتصویر: Getty Images

افغانستان کو دوسرا بڑا سکیورٹی خطرہ دہست گرد نیٹ ورک القاعدہ سے ہوگا۔ یہ نیٹ ورک اب بھی افغانستان میں موجود ہے اور اس کا ایک بڑا بیس پڑوسی ملک پاکستان میں قائم ہے۔ میشائل کوگلمن کے بقول،" اگر افغانستان میں سلامتی کی صورتحال میں واضح خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور افغان طالبان دوبارہ سے طاقتور ہو جاتے ہیں تو ہمیں یقینی طور سے القاعدہ کے دوبارہ سے فعال ہونے جیسے خطرات کے بارے میں فکر کرنا ہوگی" ۔

بھارت اور پاکستان

افغانستان کے بحران میں پاکستان کے کلیدی کردار کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔ اس ملک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طالبان کی رقوم اور سامان سے مدد کر رہا ہے اور افغانستان میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے عسکریت پسندوں کو استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے سے جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں اپنے اسٹرٹیجک اثر و رسوخ بڑھانے اور قدم جمانے کی جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھ سخت مقابلے میں ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں کی یہ کوشش ہوگی کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد اس ملک کو غیر مستحکم رکھنے والی متعدد فورسز اس ملک میں مورچہ بند رہیں۔ میشائل کوگلمن کہتے ہیں، " اگر اسلام آباد افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی پناہ گاہوں کو پاکستان میں برقرار رکھنے کی اجازت دیتا ہے تو اس امید کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ طالبان بغاوت کبھی ختم یا کمزور ہو گی" ۔ نئی دہلی حکومت کی طرف سے حال ہی میں افغانستان کے لیے دو بلین ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا جو بھارت کی طرف سے کسی ملک کو دیا جانے والا سب سے بڑا امدادی پیکیج ہوگا۔