1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کا ایک اور بحران

شادی خان29 ستمبر 2008

سردیوں کی آمد کے پیش نظر جنگ زدہ افغانستان کی آدھی سے زیادہ آبادی کو شدید ترین غذائی بحران کا سامنا ہے۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے اندر غذائی اجناس کی قیمتوں میں ساٹھ فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/FR94
ایک جرمن فوجی اہلکار افغانستان میں پناہ گزینوں تک امداد پہنچارہا ہےتصویر: AP

خشک سالی، اچھی فصل نہ ہونا اور پاکستان کی طرف سے غذائی اجناس برآمد کرنے پر عائد پابندیوں نے افغان شہریوں کی پریشانیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ کردیا ہے جسے کابل حکومت پر عدم اعتماد اور ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کی ایک بڑی وجہ قراردیا جارہا ہے۔

افغانستان پر امریکی حملےکے نتیجے میں طالبان حکومت کا تختہ الٹےتقریبا سات سال ہونے کو ہیں مگر سست روی سے جاری ترقیاتی عمل اور غذ‌ائی اجناس کی بڑھتی قیمتوں نے، تیس سال سے بدامنی کے شکار افغان عوام کی مایوسیاں مزید بڑھا دی ہیں۔

Simbabwe Kartoffelverkäuferin in Harare UN FAO Hunger und Biosprit
زمبابوے میں بھی افراط زر کی شرح میں حیران کن اضافہ ہوا ہے اور وہاں خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہےتصویر: AP

عالمی ادارہ خوراک اور ورلڈ فوڈ پروگرام کےمطابق افغانستان کیلئے چار سو ملین ڈالر کی ہنگامی امداد سے موسم سرما کی غزائی ضروریات تو کسی حد تک پوری ہو پائیں گی، لیکن اس کے بعد حالات اچھے ہوجانے کی امید بہت کم ہے۔

کابل یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر وزیر صافی کے بقول اگر امسال سردیوں کے دوران غذائی قلت شدید رہی تو طالبان کو اپنے ساتھ نئے لوگ بھرتی کرنے میں بہت آسانی ہوجائےگی۔ مختلف شہروں میں عوامی رائے بھی یہی ہے کہ طالبان عسکریت پسند، مہنگائی، بدامنی اور غیر ملکی فوجیوں کے حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو اپنی حمایت میں اضافے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

خدشات بڑھ گئے ہیں کہ افغانستان کے جنوبی و مشرقی علاقے مکمل طور پر لاقانونیت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ قانون کی مؤثر عملداری نہ ہونے کے باعث افغانستان میں رشوت ستانی کی شکایات بھی عام ہیں۔

افغان صدر حامد کرزئی اپنے اندیشہ کا اظہار بارہا کرچکے ہیں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے، بحالی و ترقی کے عمل حتیٰ کہ زندگیوں کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ افغان صدر کے بھائی اورجنوبی صوبے قندھار کی صوبائی کونسل کے سربراہ احمد ولی کرزئی کے بقول شاہراہوں پر چوری، اغوا اور ڈکیتیوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجوہات خراب معیشت، گرانی اور بیروزگاری ہیں۔

دیہات کے حالات اپنی جگہ، شہروں میں مقیم متوسط طبقہ بھی غذائی اجناس کی گرانی کے زیر اثر ہے۔ دارلحکومت کابل کے ایک ایسے ہی شہری جان آغا کے بقول امریکی دستوں کی افغانستان میں موجودگی ان جیسے عام شہریوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہی۔ اس کے برعکس افغانستان پر روس کے حملے کے دوران کم از کم غذائی اجناس سستے دام دستیاب تھیں۔