افغانستان: پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں پر کھینچا تانی
25 اکتوبر 2010کرزئی کے فیصلے سے ناخوش مغربی ملکوں کی دلیل یہ ہے کہ پرائیویٹ سکیورٹی فرموں پر جامع پابندی امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ تعمیرِ نو کے منصوبوں پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کرے گی۔ اِس پابندی کو ختم یا نرم کروانے کے لئے کابل میں آج کل غیر ملکی اور بالخصوص امریکی سفارتکاروں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اِن سفارتکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِس پابندی کے نتیجے میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی۔
جہاں مغربی دُنیا افغان صدر کے اِس اعلان کے بعد سے ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ آیا حامد کرزئی واقعی ایک قابلِ اعتبار حلیف ہیں، وہاں خود کرزئی کو اِس پابندی کے درست ہونے کا پختہ یقین ہے۔ اُنہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ’’ہمیں پانچ سال پہلے اِس مسئلے کا اندازہ ہوا تھا۔ ساڑھے تین سال پہلے ہم نے اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری کے اُس وقت کے سفیروں کے ساتھ اِس موضوع پر بات چیت کی۔ ہم نے واضح کر دیا کہ یہ فرمیں اُلٹا سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہیں، بم حملے کر رہی ہیں اور لوگوں کو پریشان کر رہی ہیں۔‘‘
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان میں سرگرمِ عمل تقریباً پچاس غیر ملکی یا ملکی سکیورٹی ایجنسیوں میں سے بہت سی قانون کے دائرے سے باہر سرگرمِ عمل ہیں۔ چند ایک کی تو باقاعدہ طریقے سے رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی ہے۔ اُن میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کو جواب دہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ماضی میں ہلاکتوں کے وقتاً فوقتاً عمل میں آنے والے واقعات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اِن سے کوئی باز پُرس نہیں ہوئی۔ اِسی وجہ سے افغان عوام میں اِن ایجنسیوں کے حوالے سے بے چینی ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ عراق میں اِن سکیورٹی ایجنسیوں کے اشتراکِ عمل سے متعلق وِکی لیکس کے تازہ انکشافات اِس بے چینی کو یقیناً اور ہوا دیں گے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اِس پابندی کے ذریعے کرزئی عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اِس پابندی کا اطلاق سترہ دسمبر سے ہونے والا ہے۔ تاہم کابل میں فوجی معاملات کے ماہر اسد اللہ ولواگی کو خدشہ ہے کہ حکومت اپنے اعلان کو سرے سے عملی شکل ہی نہیں دے سکے گی۔
وہ کہتے ہیں:’’اگر ساری سکیورٹی فرمیں بند بھی کر دی جائیں تو سوال یہ ہے کہ اِن چالیس ہزار افراد کی جگہ کون سنبھالے گا۔ پھر افغان حکومت کو یہ کام فوجیوں سے لینا پڑے گا، جو اتنا آسان نہیں ہو گا۔ چالیس ہزار اضافی فوجیوں پر پیسے خرچ ہوں گے۔ آج کل بہت سی پرائیویٹ فرموں کے کارکن چار سو ڈالر تک تنخواہ لیتے ہیں۔‘‘
تاہم کرزئی حکومت کے ترجمان کہتے ہیں کہ سکیورٹی فرموں کے کارکنوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا اور یہ کہ جلد ہی ایک محکمہ قائم کیا جائے گا، جو سکیورٹی فرموں کے سابقہ کارکنوں کو اُن کی اہلیت کے مطابق دیگر ملازمتیں دے گا۔
غیر ملکی اَفواج، سفارت کاروں اور غیر ملکی امدادی کارکنوں کو پرائیویٹ سکیورٹی فرموں کی بندش کے تصور سے ہی خوف آتا ہے۔ اُن کا موقف یہ ہے کہ سلامتی کے ذمہ دار سرکاری عہدیدار اکثر بدعنوان ہوتے ہیں، اُن میں تعلیم و تربیت کی کمی ہوتی ہے اور کبھی کبھی اُن کے طالبان کے ساتھ بھی مشکوک تعلقات ہوتے ہیں۔ غیر ملکیوں کی جانب سے احتجاج کی پہلی لہر کا اثر یہ ہوا ہے کہ غیر ملکی سفارت خانوں اور نیٹو کے فوجی اڈوں کو آئندہ بھی پرائیویٹ اداروں سے سکیورٹی خدمات حاصل کرنے کی اجازت ہو گی۔ غیر ملکی امدادی تنظیموں کو ابھی یہ اجازت نہیں دی جا رہی، جس کی وجہ سے بہت سی تنظیمیں ملک چھوڑنے کی دھمکی دے چکی ہیں۔
برلن میں قائم فاؤنڈیشن برائے سائنس اور سیاست سے وابستہ مارکُس کائم افغان حکومت کے موقف کو قابل فہم قرار دیتے ہیں:’’اِس پابندی کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں اصل طاقت ریاست کے پاس ہونی چاہئے۔ ہمارے لئے یہ بات یقیناً ناقابلِ قبول ہو گی کہ جرمنی میں پولیس یا فوج کے علاوہ کوئی اور مسلح طاقت ملک میں گھومتی پھرے۔‘‘
وہ چند ایک فرمیں، جن سے کابل حکومت لائسنس واپس بھی لے چکی ہے، اُن میں ایکس ای نام کی فرم بھی شامل ہے، جو ایک عرصے تک بلیک واٹر کے نام سے سرگرمِ عمل رہی ہے۔ یہ فرم دو ہزار سات میں شہ سُرخیوں کا موضوع بنی تھی، جب عراق میں ایک قافلے کی حفاظت پر مامور اِس فرم کے ارکان نے بغیر کسی بڑی وجہ کے سترہ شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک