1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں کرکٹ تعلیمی نصاب کا حصہ

12 فروری 2013

افغان کرکٹ ٹیم ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے۔ علاقائی ٹیموں کے خلاف کھیلنے کے بعد اب لاہور میں پاکستان اے کے خلاف برسرپیکار ہے۔ اکمل برادران سمیت کئی صف اول کے کرکٹرز پر مشتمل پاکستان اے کی قیادت شاہد آفریدی کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/17cC6
تصویر: DW/T. Saeed

افغان ٹیم کے کپتان نوروز منگل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دورہ پاکستان میں ان کے کھلاڑیوں نے کرکٹ کے متعلق بہت سیکھا ہے اور پاکستان اے کے خلاف کھیل کر ان کے کھیل میں اور نکھار آئے گا، جو مستقبل میں ان کے لیے اثاثہ ثابت ہو گا۔
دو ہزار نو میں گمنامیوں سے نکل کر آئی سی سی ڈویژن ون میں پہنچنے کے بعد افغان کرکٹرز کی کامیابیوں کا سفر کافی ڈرامائی رہا ہے۔ ٹیم کو ناصرف دو ہزار پندرہ تک ون ڈے انٹرنیشنل اسٹیٹس مل چکا ہے بلکہ اس نے گزشتہ دو ٹوئنٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کھیلنے کے لیے بھی کوالیفائی کیا تھا۔
افغان ٹیم کے کوچ کبیر خان کااس پیش رفت کے بارے میں کہنا تھا کہ جب ان کی ٹیم نےعالمی رینکنگ میں لمبی چھلانگ لگا کر ایک سو بیس سے پندرہویں پوزیشن حاصل کی توانہیں خدشہ تھا کہ افغانستان کا حشر بھی نمیبیا یا کینیا جیسا نہ ہو’’ مگر ہم نے ان ٹیموں کے ساتھ جو ہوا اس سے سبق سیکھتے ہوئے نئے اور متبادل کھلاڑی تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور پاکستان بھی جو بائیس رکنی ٹیم آئی ہے اس میں کئی ابھرتے ہوئے کھلاڑی شامل ہیں‘‘۔

Pakistan Cricket Nowroz Mangal
ٹوئنٹی ٹوئنٹی، شعیب اختر اور شاہد آفریدی افغانوں کی پسند ہیں، منگل خانتصویر: DW/T. Saeed

افغانستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ اب تک شروع نہیں ہو پائی مگر اس کھیل میں افغانوں کی دلچسپی بام عروج پر ہے۔ کبیر خان نے بتایا کہ کرکٹ افغانستان کا نمبر ایک کھیل بن چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی طرح وہاں بھی اس کھیل کا جنون پایا جاتا ہے اور قومی ٹیم کی پریکٹس دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم بھر جاتا ہے۔
کرکٹ کے پیرو کاروں میں صدر حامدکرزئی بھی شامل ہیں جو افغان کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ کبیر خان نے بتایا کہ افغانستان پہلا ایشیائی ملک ہے جہاں اگلے سال سے کرکٹ تعلیمی نصاب کا حصہ ہوگی اور اسے اسکولوں میں اسے مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ اس اقدام کا مقصد نوجونواں کو مثبت سرگرمیوں کی ترغیب دینا ہے کیونکہ افغانستان کی ستر فیصد آبادی کی عمر بیس سال سے کم ہے۔
افغانستان میں کرکٹ کا کھیل اس نسل کے ذریعہ متعارف ہوا ہے، جس نے انیس سو اناسی میں ملک پرسو ویت یونین کے حملے کے بعد پاکستان میں ہوش سنبھال تھی۔ کپتان منگل خان بھی انہی افغانوں میں سے ہیں، جن کی کرکٹ سے آشنائی پشاور کے مضافات میں کچرہ گری کے پناہ گزین کیمپوں میں رہ کر ہوئی۔ منگل خان نے بتایا ’’جب انیس سوبانوے میں پاکستان نے عالمی کپ جیتا تو ایک جشن منا رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ نہ عید ہے نا کوئی شادی پھر لوگ اتنے خوش کیوں ہیں، جس پر بتایا گیا کہ پاکستان عالمی چمپئین بن گیا ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے بھی عمران اور میانداد کی طرح کا کرکٹر بننے کی ٹھان لی‘‘۔
منگل خان کے مطابق شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان کی تو نمائندگی نہ کر سکے مگر اب جب اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے ساتھ ٹاس کرنے آتے ہیں تو یہ سب ایک خواب کی تعبیر کی طرح لگتا ہے۔
منگل خان کے بقول ٹوئنٹی ٹوئنٹی، شعیب اختر اورشاہد آفریدی افغانوں کی پسند ہیں۔ انہوں نے کہا افغان لوگ شعیب اختر کا غصہ اور آفریدی کی لاپرواہی کو پسند کرتے ہیں۔ اس داستان کا خوش کن پہلو یہ ہے کہ افغان کرکٹ ٹیم کو طالبان کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ منگل کا کہنا تھا کہ سن دو ہزار میں کرکٹ ٹیم طالبان دور میں ہی شروع ہوئی اس لیے انہوں نے کبھی اس کھیل کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ خوش ہوتے ہیں کہ وہ ملک کے لیے کھیل رہے ہیں۔
کوچ کبیر خان کا کہنا تھا کہ وہ ایشیائی ممالک کی سپورٹ سے مطمئن نہیں۔ ’’ صرف پاکستان نے اب ہماری مدد کرنا شروع کی ہے۔ انگلینڈ اس وقت اپنے تین پڑوسی ممالک سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ اور ہالینڈ کی ہر ممکن مدد پر کمر بستہ ہے تاکہ انہیں ٹیسٹ اسٹیٹس دلوا سکے اور اگراس طرح پڑوسی ممالک پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش سپورٹ کریں تو ہم بھی ٹیسٹ ٹیم بن سکتے ہیں۔
افغانستان کی ٹیم اب اگلے ماہ اسکاٹ لینڈ کے خلاف شارجہ میں دو ایک روزہ بین اقوامی میچ کھیلے گی۔

اکمل برادران سمیت کئی صف اول کے کرکٹرز پر مشتمل پاکستان اے کی قیادت شاہد آفریدی کر رہے ہیں
اکمل برادران سمیت کئی صف اول کے کرکٹرز پر مشتمل پاکستان اے کی قیادت شاہد آفریدی کر رہے ہیںتصویر: AP


رپورٹ: طارق سعید لاہور

ادارت: عدنان اسحاق