1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں

رپورٹ:شہاب احمد صدیقی، ادارت:مقبول ملک14 جون 2009

افغانستان ميں بيس اگست کو صدارتی انتخابات ہورہے ہيں۔ابھی يہ واضح نہيں ہے کہ کيا طالبان ان انتخابات ميں حصہ ليں گے يا ان کو ناکام بنانے کی کوشش کريں گے۔

https://p.dw.com/p/I9Ig
تصویر: AP

سياسی ماہرين اور مبصرين کا اس بارے ميں بہت اختلاف رائے ہے کہ افغانستان کے اگست ميں ہونے والے صدارتی انتخابات ميں طالبان کا طرز عمل کيا ہوگا۔بعض کا خيال ہے کہ طالبان انتخابات ميں حصہ ليں گے،ليکن بعض دوسرے مبصرين کا خيال ہے کہ طالبان انتخابات کانہ صرف بائيکاٹ کريں گےبلکہ ان کو ناکام بنانے کی کوشش کريں گے۔

Auch der Präsident wählt
افغان صدر حامد کرزئیتصویر: AP

افغان صدر حامدکرزائی طالبان کو سياست ميں شامل کرنے کی کوشش کررہے ہيں ، تاکہ وہ ان کی مزاحمت کو کمزور کرسکيں ليکن اب تک وہ اس ميں ناکام رہے ہيں۔طالبان اور ان کے قائد ملا عمر کے نزديک کرزائی واشنگٹن کی کٹھ پتلی ہيں اور بين الاقوامی فوجی اتحاد ايک قابض فوج ہے۔

اس کے باوجودافغان رائے عامہ کے محقق وحيد مشدہ کا کہنا ہے کہ طالبان انتخابات ميں حصہ ليں گے۔

"طالبان نے خفيہ طور پر قند ہار ميں کرزائی کے نمائندے اور بھائی قيوم کرزائی کے ساتھ اس بارے ميں ايک سمجھوتہ کيا ہے۔"

وحيد کا کہنا ہے کہ طالبان بيس اگست کے صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے کی کارروائی نہيں کريں گے۔

چنانچہ درپردہ کرزائی حکومت اور طالبان ميں قربت پائی جاتی ہے ۔تاہم امريکی وزير دفاع گيٹس نے خبردار کيا ہے کہ جب تک حالات طالبان کے لئے ناسازگار نہيں ہوجاتے اس وقت تک ان سے مصالحت ممکن نہيں کيونکہ وہ ہميشہ اپنی طاقتور پوزيشن سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کريں گے ۔تاہم سوات ميں پاکستانی فوج کے بڑے حملے سے طالبان بہت کمزور ہو گئے ہيں۔

صدر کرزائی کی صدارتی مدت اکيس مئی کو ختم ہوچکی ہے ۔ اعلی ترين عدالت کے حکم کے تحت اس ميں انتخاباتی نتائج کے معلوم ہونے تک توسيع کردی گئی ہے۔