1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں زچہ و بچہ کی صحت کو لاحق خطرات

23 نومبر 2012

پیدائش کے وقت زچہ و بچہ کی اموات کے حوالے سے افغانستان کا ریکارڈ خاصا خراب رہا ہے تاہم اس میں گزشتہ دس برسوں کے دوران کچھ بہتری ہوئی ہے لیکن اب ایسے خدشات ابھر رہے ہیں کہ اس ضمن میں کی گئی پیشرفت کو خطرات لاحق ہیں۔

https://p.dw.com/p/16oRG
تصویر: picture-alliance/dpa

افغانستان کے شمالی صوبے بدخشان کے ضلع بہارک میں دس برس پہلے تک کوئی دائی نہیں تھی۔ اب یہاں چار خواتین زچگی کے دوران ماں اور بچے کی دیکھ بھال کے لیے موجود ہیں۔ اس صوبے میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ اگرچہ علاج معالجے سے متعلق معیار اب بھی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت خستہ حال ہے تاہم بہارک کی دائی نصیرہ کریمی جیسی محنتی خواتین کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ میٹرنل ہیلتھ کے حوالے سے افغانستان میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ کریمی کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے آس پاس زچگی سے متعلق ایسی درد ناک کہانیاں سنیں، جن کے باعث وہ دائی بننے اور اس پیشے کی مکمل تربیت حاصل کرنے پر تیار ہوئیں۔ ’’جب میں چھوٹی تھی تو میں نے ایسی کئی خواتین کی کہانیاں سُنیں جو زچگی کے دوران فوت ہوگئیں۔‘‘

عالمی ادارہء صحت کے مطابق 2000ء کے دوران افغانستان میں ہر بارہ خواتین میں سے ایک زچگی کے دوران انتقال کر گئی۔ 2010ء میں یہ شرح بہتر ہوکر ہر 32 میں ایک خواتین کی موت تک پہنچ گئی۔ بدخشان صوبے میں صورتحال خاصی گھمبیر تھی۔ یونیسیف کے مطابق یہاں 2002ء کے دوران ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے ساڑھے چھ ہزار جان گنوا بیٹھیں جبکہ ملک بھر میں یہ شرح ایک لاکھ میں سے سولہ سو خواتین کی موت تھی۔ عالمی ادارہء صحت کے مطابق اس تناظر میں دنیا کے 20 ممالک میں صورتحال خاصی خراب ہے، جن میں افغانستان کے علاوہ 18 افریقی ممالک شامل ہیں۔

دائی کریمی البتہ اب تک ہونے والی پیشرفت سے خوش ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اب بدخشان میں زچگی کے دوران ہلاکت کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ کریمی کو آغا خان فاؤنڈیشن کے تحت ننانوے دیگر خواتین کی طرح تربیت دی گئی ہے۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں دائی کی موجودگی اس حوالے سے بھی خاصی خوش آئند تصور کی جا رہی ہے کہ حاملہ خواتین کی ہسپتالوں تک رسائی خاصی محدود اور مشکل ہے۔

اب ایسے خدشات موجود ہیں کہ 2014ء میں غیر ملکی فوج کے جنگی مشن کے خاتمے اور بیشتر فوجیوں کی افغانستان سے واپسی صورتحال کو خراب کرسکتی ہے۔ بالخصوص خواتین کو ڈر ہے کہ اگر عسکریت پسند اقتدار میں آگئے تو ان پر سخت پابندیاں عائد کر دی جائیں گی اور صورتحال پھر دس برس پہلے جیسی ہوجائے گی۔ اے ایف پی کے مطابق ایک اور بڑی مشکل سرمایے کی کمی بھی ہے۔ بین الاقوامی برادری نے 2015ء تک افغانستان کے لیے 16 ارب ڈالر کی امداد کے وعدے کیے ہیں، جس کے لیے جمہوری اصولوں کے مطابق انتخابات اور بدعنوانی کے خاتمے کی شرطیں رکھی گئیں ہیں۔

(sks/ at (AFP