افغانستان میں جرمن قونصل خانے پر طالبان کا حملہ
11 نومبر 2016بتایا گیا ہے کہ مزار شریف میں کیے گئے اس حملے کے بعد سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مطابق اس ٹرک بم حملے کے نتیجے میں جرمن سفارت خانے کی عمارت کو زبردست نقصان پہنچا ہے، جب کہ قریب پانچ کلومیٹر کے علاقے میں متعدد دیگر عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ ایک مقامی ڈاکٹر کے مطابق اس واقعے میں 120 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر کا کہنا ہے کہ اس حملے کے وقت عمارت کے اندر سفارتی عملہ موجود نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمن افغانستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تشدد کے تناظر میں وہاں اپنے کردار پر نظرثانی کر رہا ہے۔
جمعرات کے روز پیش آنے والے اس واقعے کو امریکا میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری سے شروع ہونے والی مدت صدارت اور ان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک کڑے امتحان کی نشان دہی قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ افغانستان میں امریکی جنگی مشن سن 2014ء کے اختتام پر ختم ہو چکا ہے، تاہم اب بھی کئی ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں، جو وہاں زیادہ تر تربیت فراہم کرنے کے کام پر مامور ہیں، تاہم کہیں کہیں وہ طالبان کے خلاف کارروائیوں میں افغان فورسز کی عسکری مدد کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ شمالی افغان شہر قندوز میں ایک امریکی فضائی کارروائی میں 30 افراد کی ہلاکت کے بدلے میں کیا گیا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹیلی فون پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جرمن قونصل خانے کو تباہ کرنے کے لیے ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں اور خودکش بمباروں کو روانہ کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ انہیں جو کوئی نظر آئے اسے ہلاک کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ طالبان جنگجوؤں نے قندوز شہر پر قبضے کے لیے ایک بڑا حملہ کیا تھا، تاہم وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس سے ایک برس قبل طالبان نے کچھ روز کے لیے قندوز پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد افغان فورسز نے امریکی عسکری مدد کے ذریعے ان شدت پسندوں سے یہ شہر واپس چھینا تھا۔