افغانستان میں بے سہارا معاشرتی زوال
طالبان نے جب سے افغانستان میں حکومت سنبھالی ہے تب سے بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ملک کی صورت حال ابتر ہے۔ نصف آبادی فاقوں پر مجبور ہے اور حکومت خواتین کے حقوق کو محدود کرنے میں مصروف ہے۔
بہت کم خوراک
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ لوگ بھوک اور خوراک کی دستیابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو اب چین سے بھی امدادی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ترجمان کے مطابق افغانستان میں بھوک کی جو سنگین صورت حال ہے، اس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ترجمان نے بھوک سے مارے افراد کی تعداد بیس ملین کے قریب بتائی ہے۔
خشک سالی اور اقتصادی بحران
سارے افغانستان میں لوگوں شدید خشک سالی اور معاشی بدحالی کی سنگینی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک ماہر ایتھنا ویب کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام بائیس ملین افغان افراد کی مدد کر چکا ہے۔ مزید امداد جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کو ایک ارب تیس کروڑ درکار ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام کا امداد جاری رکھنا اس پر منحصر ہے۔
انتظامی نگرانی سخت سے سخت تر
طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے سابقہ دور کے مقابلے میں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج ان کے اس دعوے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سخت تر پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہیں سیکنڈری اسکولوں تک کی رسائی سے روک دیا گیا ہے۔ تنہا اور بغیر مکمل برقعے کے کوئی عورت گھر سے نہیں نکل سکتی ہیں۔ تصویر میں کابل میں قائم چیک پوسٹ ہے۔
نئے ضوابط کے خلاف احتجاج
افغانستان کے قدرے لبرل علاقوں میں نئے ضوابط کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک احتجاج بینر پر درج ہے، ’’انہیں زندہ مخلوق کے طور پر دیکھا جائے، وہ بھی انسان ہیں، غلام اور قیدی نہیں۔‘‘ ایک احتجاجی بینر پر درج ہے کہ برقعہ میرا حجاب نہیں۔
ایک برقعہ، قیمت پندرہ ڈالر
کابل میں ایک برقعہ فروش کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے نئے ضوابط کے اعلان کے بعد برقعے کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافہ ہوا ضرور لیکن اب قیمتیں واپس آتی جا رہی ہیں لیکن ان کی فروخت کم ہے۔ اس دوکاندار کے مطابق طالبان کے مطابق برقعہ عورت کے لیے بہتر ہے لیکن یہ کسی عورت کا آخری انتخاب ہوتا ہے۔
ریسٹورانٹ میں اکھٹے آمد پر پابندی
مغربی افغانستان میں طالبان کے معیار کے تناظر میں قندھار کو لبرل خیال کیا جاتا ہے، وہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ کسی ریسٹورانٹ میں اکھٹے جانے کی اجازت نہیں رکھتے۔ ایک ریسٹورانٹ کے مینیجر سیف اللہ نے اس نئے حکم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکم کے پابند ہیں حالانکہ اس کا ان کے کاروبار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیف اللہ کے مطابق اگر پابندی برقرار رہی تو ملازمین کی تعداد کو کم کر دیا جائے گا۔
بین الاقوامی برادری کا ردِ عمل
طالبان کے نئے ضوابط کے حوالے سے عالمی سماجی حلقوں نے بااثر بین الاقوامی کمیونٹی سے سخت ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے ان ضوابط کے نفاذ کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کو ختم کرنے کے فوری اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔