1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں انسانوں کی اسمگلنگ ایک منافع بخش کاروبار

14 فروری 2022

افغانستان سے شہریوں کو ملک چھوڑنے میں مدد دینے والے انسانوں کے اسمگلر آج کل دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ اسمگلر افغان شہریوں کی مشکلات میں مدد کے بجائے کاروباری منافع کو وقعت دیے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/470UV
Afghanistan Kabul Flughafen
تصویر: Shakib Rahmani/AFP/Getty Images

جب طالبان نے افغانستان میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو ایک خاتون شفیقہ سائی کو علم تھا کہ انہیں ملک سے فرار ہونا پڑے گا۔ لیکن انہیں اس بات کا ہرگز علم نہیں تھا کہ اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

انسانوں کے اسمگلر افغانستان میں اس غیر یقینی صورتِ حال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں میں سرحد پار کرنے کی بڑھتی خواہش اور ملک میں پھیلی بدامنی کی وجہ سے ایسے اسمگلر اپنی خدمات کے عوض بھاری رقوم کے مطالبے کرتے ہیں۔

وہ افغان شہری جو گزشتہ سال 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے ملک سے فرار ہوئے ہیں، یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ سرحد پار پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے بھی ان سے رشوت طلب کی اور گھروں کے مقامی مالکان نے زمینوں اور گھروں کے کرائے دو سے تین گنا تک بڑھا دیے۔

Afghanische Flüchtlinge
انسانوں کے اسمگلر اب أفغان باشندوں سے سرحدی شہر اسپن بولدک سے ہوتے ہوئے پاکستان پہنچانے کے لیے اوسطاً 140 سے 193 امریکی ڈالر وصول کرتے ہیں.تصویر: AP

افغانستان میں طالبان کے دور حکومت اور شدید ترین حالات کے پیشِ نظر افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ لیکن پاکستان، ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک کی جانب سے سرحدوں کی بندش، ویزا اور پاسپورٹ کے حصول کے مشکل ترین مراحل کی وجہ سے اکثر لوگ غیر قانونی طریقہ کار کو ترجیح دیتے ہیں۔

مکسڈ مائیگریشن سینٹر نے، جو اسمگلروں کی جانب سے وصول کردہ رقوم پر بھی نظر رکھتا ہے، کہا ہے کہ کووڈ انیس کی وبا کے دوران ان اسمگلروں نے اپنے معاوضے پہلے ہی بڑھا رکھے ہیں اور پابندیوں نے سفر مشکل تر بنا دیا ہے، تاہم گزشتہ اگست کے بعد سے افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند شہریوں کے لیے سرحد پار کرانے کی رقوم میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

افغان سرحد پر روسی قيادت ميں جنگی مشقيں: مقصد کيا ہو سکتا ہے؟

بے قابو ہوتے اخراجات

26 سالہ سائی اپنی والدہ اور سات بہن بھائیوں سمیت دارالحکومت کابل سے 25 اگست کو فرار ہوئیں۔ ایک غیر ملکی ادارے کی جانب سے ان کے فرار کو ممکن بنانے کے لیے اسمگلروں کو پانچ ہزار امریکی ڈالر ادا کیے گئے۔ ان کا خاندان ہزارہ شیعہ برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اقلیتی برادری کو سن 1996 سے 2001 تک طالبان کی گزشتہ حکومت کے دوران نسل کشی کا سامنا رہا تھا۔

طالبان کی اقتدار میں واپسی نے سائی کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف طالبان کے ارکان کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے میں مدد کی تھی اور طالبان حکومت کے خلاف مظاہروں میں بھی سرگرم رہی تھیں، بلکہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز بھی بلند کرتی رہی تھیں۔ پاکستان میں داخل ہونے کے لیے ان کی والدہ کو بیماری کا بہانہ بنانا پڑا تھا اور یہ ترکیب کام کر گئی تھی۔

سائی کا کہنا ہے کہ ملکی سرحد پار کرنے کے بعد بھی رشوت کا سلسلہ رکا نہیں تھا اور اسلام آباد پہنچنے تک انہیں کئی چیک پوسٹوں پر رشوت دینا پڑی تھی۔ اسلام آباد میں بھی ایک پاکستانی کے مقابلے انہیں کئی گنا زیادہ کرائے پر مکان لینا پڑا کیونکہ پاکستان میں افغان باشندوں کو کرائے پر مکان ملنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔

انسانوں کے اسمگلروں کے بڑھتے ہوئے مالی معاوضے

انسانوں کے اسمگلر اب أفغان باشندوں سے سرحدی شہر اسپن بولدک سے ہوتے ہوئے پاکستان پہنچانے کے لیے اوسطاً 140 سے 193 امریکی ڈالر وصول کرتے ہیں۔ جنیوا میں قائم مکسڈ مائیگریشن سینٹر کے مطابق یہ رقم ایک سال پہلے تک صرف 90 امریکی ڈالر تھی۔

افغانستان سے ایران: انسانی اسمگلنگ میں کئی گنا اضافہ

عموماﹰ انسانوں کے اسمگلر یہ رقم اس بنیاد پر طے کرتے ہیں کہ سرحد پار کرنے والے کو جس راستے سے جانا ہوتا ہے، وہ کتنا مشکل راستہ ہے، موسم کیسا ہے اور جو شخص ملک چھوڑنا چاہ رہا ہے، اس کی تمام معلومات بھی اس مرحلے میں اہم ہوتی ہیں۔

ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے دو بچوں سمیت اسلام آباد پہنچانے کے لیے ایک ہزار امریکی ڈالر مانگے گئے۔ عبداللہ محمدی مکسڈ مائیگریشن سینٹر سے منسلک ایک ایکسپرٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے اسمگلر‍ منظم جرائم پیشہ گروہوں کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کریمینل نیٹ ورکس اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے ایسے لوگوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘

صحافی اسماعیل لالی، جو خود بھی ہزارہ برادری کے رکن ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ افغان باشندے ملک چھوڑنے کے لیے بے چین ہیں لیکن ان اسمگلروں نے لوگوں کی مجبوریوں کو اپنا کاروبار بنا رکھا ہے۔ انہوں نے خود بھی 700 امریکی ڈالر اسمگلنگ اور رشوت کے طور پرادا کیے تاکہ اسمگلر انہیں پاکستانی شہر کوئٹہ پہنچا سکیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’انسانوں کے اسمگلروں اور پاکستانی پولیس یہ دونوں کے لیے فائدہ مند کاروبار ہے۔‘‘

ان الزامات کے تصدیق کے لیے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ر ب / ع ح (روئٹرز)