افغان جنگ میں امریکی اخراجات پر پاکستانی ماہرین کی تنقید
8 فروری 2018امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکی ا یک رپورٹ کے مطابق امریکا سالانہ بنیادوں پر 45 ارب ڈالر افغان جنگ پر خرچ کر رہا ہے لیکن مستقبل قریب میں اس جنگ کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ کئی پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا جب سے افغانستان میں آیا ہے اس نے اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالرز خرچ کیے ہیں لیکن پھر وہاں امن نہیں ہوسکا کیونکہ افغانستان میں اس پیسے کا ایک بڑا حصہ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔
امریکا پاکستانی فوج، انٹیلیجنس حکام پر پابندیاں لگائے، کرزئی
پاکستان، افغانستان میں حملوں کا اختیار، دباؤ کا نیا طریقہ؟
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہ،’’مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ سابق صدر حامد کرزئی اور ان کے بھائی پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات تھے اور موجودہ افغان قیادت میں بھی کئی افراد کو ان الزامات کا سامنا ہے۔ جب آپ پیسہ لوگوں پر نہیں لگاتے، تو ان کا رجحان انتہا پسندی کی طرف بڑھتا ہے اور طالبان کی باتیں ان کے لیے پر کشش بن جاتی ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا نے شروع میں گیارہ بارہ بلین ڈالرز افغان فوج کی تربیت پر سالانہ خرچ کیے، اب انہیں تقریباﹰ چھ بلین ڈالرز چاہییں۔ لیکن اتنا پیسہ خرچ کرنے کے بعد ان کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گھوسٹ ملازمین نہ صرف دوسرے سرکاری اداروں میں ہیں بلکہ فوج میں بھی ایسے ملازمین ہیں۔‘‘
تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں بھی افغانستان میں کرپشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ’’ایک امریکی جریدے کی رپورٹ ہے کہ افغانوں نے ایک خطیر رقم سے اسکول تعمیر کیا لیکن کچھ ہی عرصے میں اس کی چھت اور دیواروں نے جواب دے دیا۔ تو کرپشن سمیت کئی اور مسائل بھی افغانستان کی خانہ جنگی کا باعث ہیں۔ اس لیے افغانستان کو یہ معاملات خود حل کرنے چاہیے اور ساری چیزوں کا ملبہ پاکستان پر نہیں ڈالنا چاہیے۔‘‘
تاہم کابل سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار وحید اللہ عزیزی کے خیال میں پاکستان کے خلاف الزامات کی نوعیت مختلف ہے۔ عزیزی کے مطابق، ’’پاکستان کو کرپشن کے حوالے سے کبھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ انہیں اس حمایت کے لیے الزام دیا جاتا ہے، جو وہ افغان حکومت کے مطابق دہشت گردوں کو دیتے ہیں۔زیادہ تر جو امداد آئی وہ امریکا کی طرف سے ہونے والے عسکری آپریشنز پر خرچ ہوئی۔ یہ افغانوں کو نہیں دی گئی۔‘‘
انہوں نے اعتراف کیا کہ حالیہ مہینوں میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عزیزی کہتے ہیں، ’’لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغان فورسز طالبان کا مقابلہ نہیں کر رہی ہیں۔ میرے خیال میں ان کی کارکردگی بہتر ہو رہی ہے اور طالبان کے خلاف تمام محاذوں پر وہ ہی آگے آگے ہیں۔ اس کے علاوہ فوج میں ہونے والی حالیہ اصلاحات بھی ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔‘‘