افغانستان میں امریکی افواج کی تعیناتی، لویہ جرگہ کی مشروط رضا مندی
20 نومبر 2011افغان دارالحکومت کابل میں چار روزہ لویہ جرگہ کے اختتام پر افغان قبائلی رہنماؤں نے افغانستان میں امریکی افواج کی طویل المدتی بنیادوں پر تعیناتی کو مشروط طریقے سے منظور کر لیا ہے۔
اس لویہ جرگہ کے اختتام پر جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں زور دیا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی شہری اگر کسی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں تو انہیں کسی قسم کی مامونیت حاصل نہیں ہونی چاہیے اور یہ کہ اگر کوئی تیسرا ملک افغانستان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ کو افغانستان کا ساتھ دینا ہو گا۔ افغان صدر نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی افواج راتوں کو چھاپے مارنے ختم کر دیں اور گھر گھر تلاشی لینے کا سلسلہ روک دیا جائے۔ جرگہ کی طرف سے مجوزہ شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی کی زیادہ تر ذمہ داریاں افغان سکیورٹی فورسز کے ہاتھ میں ہونی چاہییں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے لویہ جرگہ میں شریک دو ہزار سے زائد قبائلی عمائدین کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام مشورے افغانستان کی بہتری کے لیے ہیں۔ اس لویہ جرگہ میں افغانستان بھر سے تمام اہم قبائل کے رہنما شامل ہوئے تھے۔ ان تمام رہنماؤں نے مل بیٹھ کر 2014ء کے بعد افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور امریکہ کے ساتھ مستقبل میں باہمی تعلقات کی نوعیت پر سیر حاصل بحث کی۔
لویہ جرگے کے اعلامیہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ تشدد کا راستہ ترک کر دینے والے طالبان باغیوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اس لویہ جرگے کی منتظم کمیٹی کی خاتون ترجمان صفیہ صدیقی نے اعلامیہ پڑھتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر یہ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ دس برسوں کے لیے ہو گی تاہم بعد ازاں فریقین کی باہمی رضا مندی سے اس میں توسیع ممکن ہو سکے گی۔
اس جرگے کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر اب افغان اور واشنگٹن حکومتیں مذاکرات کریں گی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس مجوزہ ڈیل پر امریکہ یا افغانستان عمل کرنے کے پابند نہیں ہوں گے بلکہ یہ اسٹریٹیجک پارٹنر شب رضا کارانہ بنیادوں پر استوار ہو گی۔
2014ء کے اواخر تک افغانستان میں تعینات غیرملکی فوجی دستوں کا انخلاء ہو جائے گا۔ کئی سکیورٹی مبصرین کے مطابق افغان فورسز اتنی قابل نہیں ہیں کہ وہ طالبان باغیوں کے حملوں کا مؤثر طریقے سے جواب دے سکیں۔ افغان رہنماؤں نے اپنی استعداد کاری کو بغور پرکھتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کا کام جاری رہنا چاہیے تاکہ وہ سلامتی کی تمام تر ذمہ داریاں جلد ہی از خود سنبھال سکیں۔
دوسری طرف اس جرگے کا بائیکاٹ کرنے والے اپوزیشن رہنما عبداللہ عبداللہ نے اس جرگے میں کیے گئے فیصلوں کے جائز ہونے پر سوال اٹھائے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی سے جڑے مسائل کا ممکنہ حل تلاش کرنے کے لیے پارلیمان ایک سپریم ادارہ ہے جبکہ اس طرح کے جرگوں کے دوران اہم ملکی معاملات پر مشاورت غیر قانونی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گِل