1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان ميں شدت پسندوں کی پناہ گاہيں، مسئلہ پاکستان کے ليے

26 جولائی 2020

اقوام متحدہ کی ايک تازہ رپورٹ ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ کالعدم شدت پسند تنظيم تحريک طالبان پاکستان کے ہزاروں جنگجو افغانستان ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يہ رپورٹ سفارتی سطح پر پاکستان کے ليے ايک مثبت پيش رفت ہے۔

https://p.dw.com/p/3fvoc
Afghanistan Taliban-Gruppe unterstüzt TAPI-Projekt
تصویر: DW/S. Tanha

افغانستان ميں چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درميان پاکستان مخالف شدت پسند پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ايک تازہ رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان شدت پسندوں کی اکثريت کا تعلق کالعدم تنظيم 'تحريک طالبان پاکستان‘ (TTP) سے ہے۔ رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ اس تنظيم کے افغانستان ميں 'اسلامک اسٹيٹ‘ یا داعش کی مقامی شاخ  کے ساتھ بھی روابط ہيں اور يہ پاکستان ميں سويلين اور عسکری اہداف پر حملوں ميں ملوث رہی ہے۔ فوری طور پر کابل حکومت کا اس رپورٹ پر کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا۔

يہ رپورٹ اقوام متحدہ کی اس ٹيم نے تيار کی ہے، جو عالمی ادارے کی طرف سے نافذ کردہ پابنديوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرتی ہے اور دنيا بھر ميں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت کا بھی ريکارڈ رکھتی ہے۔ يہ رپورٹ اقوام متحدہ کی جانب سے اسی ہفتے جاری کی گئی۔ رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ 'آئی ايس ان خراسان‘ کہلانے والی داعش کی مقامی شاخ سے وابستہ شدت پسندوں کو نہ صرف افغان سکيورٹی دستے بلکہ وہاں تعينات امريکی اور نيٹو دستے اور کبھی کبھار طالبان بھی نشانہ بناتے آئے ہيں۔

افغانستان ميں 'اسلامک اسٹيٹ‘ کتنی مضبوط ہے؟

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ افغانستان ميں سرگرم داعش کے ارکان کی تعداد تقريباً بائيس سو ہے۔ گو کہ اس تنظيم کی مقامی قيادت کو نشانہ بنايا جاتا رہا ہے مگر خيال کيا جاتا ہے کہ شامی شہری ابو سعد محمد الخراسانی اس کا سربراہ ہے۔ رپورٹ ميں مزيد بتايا گيا ہے کہ مانيٹرنگ ٹيم کو خفيہ اطلاع ملی کہ مشرق وسطیٰ سے 'اسلامک اسٹيٹ‘ کے دو سينئر کمانڈر ابو قطيبہ اور ابو حجر العراقی حال ہی ميں افغانستان پہنچے تھے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کيا ہے کہ 'اسلامک اسٹيٹ‘ افغانستان کے تمام حصوں ميں دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحيت رکھتی ہے۔ يہ تنبيہ بھی کی گئی ہے کہ تنظيم کے ارکان افغان طالبان کے ان اراکين کی حمايت حاصل کرنے کی کوششوں ميں ہيں، جو حاليہ امريکا طالبان امن ڈيل کے خلاف ہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ کئی سالوں سے جاری مذاکراتی عمل کے بعد رواں سال فروری ميں دوحہ ميں امريکا اور طالبان نے ايک امن ڈيل کو حتمی شکل دی تھی۔ اس ڈيل کے تحت طالبان کے پانچ ہزار قيدیوں کو رہا کيا جانا ہے، جن ميں سے کابل حکومت چار ہزار کو رہا کر چکی ہے۔ افغان طالبان بھی اپنے زیر حراست سات سو سرکاری اہلکار رہا کر چکے ہیں۔

افغانستان کے ليے خصوصی امريکی مندوب زلمے خليل زاد پچیس جولائی ہفتے کے دن پانچ ملکوں کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ ان کے اس دورے کا مقصد کابل حکومت اور طالبان عسکریت پسندوں کے مابين مذاکرات کو عملی شکل دینے کی کوشش کرنا ہے۔ امريکی محکمہ خارجہ نے ہفتے کے روز بتايا کہ خليل زاد اس دورے کے دوران متعدد ممالک کا سفر کریں گے۔ امن مذاکرات میں سہولت کاری کے ليے وہ اوسلو، اسلام آباد، دوحہ، کابل اور صوفيہ جائیں گے۔ افغانستان ميں خليل زاد قيديوں کے تبادلے کے معاملے کو آگے بڑھانے پر زور ديں گے، جو امن مذاکرات کی ابتدا کی راہ ميں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ يہ تمام تر سفارتی کوششيں افغانستان ميں ديرپا قيام امن کے ليے کی جا رہی ہيں۔

افغانستان ميں شدت پسنوں کی پناہ گاہيں، پاکستان کے ليے بڑا مسئلہ

تحريک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور لشکر اسلام جيسی کالعدم تنظيموں سے وابستہ شدت پسندوں کی افغانستان ميں موجودگی پاکستان کے ليے ايک بڑا مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی مقامی عليحدگی پسند گروہ بلوچستان لبريشن آرمی بھی سرگرم ہے، جو جنوبی صوبہ سندھ اور بلوچستان ميں متحرک ہے اور انہی صوبوں ميں حملے بھی کرتی آئی ہے۔ ان تمام تنظيموں کے حملوں ميں نہ صرف پاکستانی فوجی اہلکاروں بلکہ شہريوں کی ايک بڑی تعداد بھی ہلاک ہو چکی ہے۔

ٹی ٹی پی سن 2014 ميں پاکستانی تاريخ کے بد ترين سانحے ميں بھی ملوث تھی، جب اس تنظيم سے وابستہ شدت پسندوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دھاوا بولتے ہوئے ايک سو چاليس افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ ان ميں اکثريت کم عمر طالب علموں کی تھی۔

طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی

ع س / م م (اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید