1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: قیام امن کے لیے کیا ایک اور بون اجلاس ضروری ہے؟

شادی خان سیف، کابل
28 فروری 2018

طالبان دور کے خاتمے کے بعد بننے والی افغان حکومت کی بنیاد جرمن شہر بون منعقده ایک تاریخی بین الاقوامی اجلاس میں رکهی گئی تهی۔ اب جرمنی نے اس جنگ زده ملک کے بہتر مستقبل کے لیے امن مذاکرات کی میزبانی کا عزم ظاہر کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2tRjz
تصویر: dapd

افغانستان میں طالبان، کابل حکومت اور اس کے طاقت ور حامی امریکا کی جانب سے قیام امن کے لیے مذاکرات کے حوالے سے غیر معمولی اشارے دیکھے جارہے ہیں۔ اب منگل 28 فروری کو افغان صدر محمد اشرف غنی کی جانب سے طالبان کو امن مذاکرات کی غیر مشروط اور فراخدلانه پیشکش کے بعد اس قریب 17 ساله جنگ میں ایک اور تاریخی موڑ کی توقع کی جارہی ہے۔

افغانستان کے لیے جرمنی کے نائب سفیر آندرس فان برینڈٹ نے آج ایک بیان میں کہا که ان کا ملک بون، برلن یا کسی بهی دوسرے شہر میں امن مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے جرمنی کے خصوصی مندوب مارکوس پوٹسل نے بدھ کو ’کابل پروسس‘ نامی ایک اجلاس میں شرکت کی، جس میں صدر محمد اشرف غنی نے طالبان کو امن مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے ان پر زور دیا که وه آئین کو تسلیم کریں، دہشت گردی سے ناطه توڑ دیں اور ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے ملک کی بقا اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

واضح رہے که ایک ماه کے دوران طالبان نے دو اعلامیے جاری کیے ہیں، جن میں افغان تنازعے کے پر امن حل کے لیے آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔

Afghanistan Konferenz 2011 Bonn Dossierbild 1
تصویر: dapd

 

امن رابطوں کا مختصر احاطه

اقوام متحده کے توسط سے سال 2001 میں منعقد کی گئی پہلی بون کانفرنس کے بعد حامد کرزئی کو افغانستان کا نیا صدر منتخب کیا گیا اور طالبان نے اقتدار کهونے کے باوجود اسی برس دسمبر میں اپنے زیر انتظام چند صوبوں کا کنٹرول بهی کابل حکومت کے حوالے کر دیا تاہم بات ایک جامع مفاہمت تک نه پہنچ سکی اور مسلح بغاوت زور پکڑتی گئی۔ اس کے قریب آٹھ برس بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں طالبان اور امریکا کے مابین بات چیت کی کوششیں جمود کا شکار ہو گئیں۔

تین برس بعد2011 میں فریقین کے مابین جرمنی میں رابطوں کا آغاز ہوا، جو ایک برس بعد بے نتیجه اختتام پذیر ہوئے۔ اس ضمن میں اہم پیشرفت قطر میں دیکهنے میں آئی، جب بات سن 2013 میں طالبان کے سیاسی دفتر کے افتتاح تک پہنچ گئی۔ مگر یه معامله بهی اس وقت جمود کا شکار ہو گیا جب طالبان نے اس دفتر میں نصب کرنے کے لیے ایک سیاسی جماعت والا  نہیں بلکه اپنے دور حکومت کے 'د افغانستان اسلامی امارت' کے پرچم کا انتخاب کیا، جس پر افغان حکومت نے اعتراض کیا که طالبان امن نہیں بلکه خود کو تسلیم کروانے پر تلے ہوئے ہیں۔

اعتدال پسند طالبان سے گفتگو ضروری: چانسلر ميرکل

افغانستان کو 2024ء تک مالی امداد کی ضرورت رہے گی، بون کانفرنس

پاکستان کی جانب سے بون کانفرنس کا بائیکاٹ، مغرب کا ردِ عمل

قطر: طالبان کے دفتر سے پرچم ہٹا دیا گیا

امن مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں ؟

سیاسی امور کے افغان تجزیه نگار محب الله شریف کہتے ہیں که اس پورے معاملے میں یه سمجهنا ضروری ہے که خطے کے ممالک ماضی میں بهی اور اب بهی افغانستان میں مداخلت کر رہے ہیں، اور اس مسئلے کا حل تلاش کیے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔ ان کے بقول ایک اور اہم نکته یه ہے که خود افغان حکومت اور طالبان مختلف دهڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایسے میں ایک جامع اور متفقه لائحه عمل کے امکانات خاصے محدود ہیں۔

یاد رہے که اب تک بیشتر حلقے پاکستان کو طالبان کا اہم حامی قرار دیتے رہے ہیں لیکن حالیه عرصے میں روس اور ایران کے حوالے سے بهی ایسی رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔ امن پالیسی کا احاطه کرتے ہوئے صدر محمد اشرف غنی نے پاکستان کی جانب اشاره کرتے ہوئے کہا که افغانستان پاکستان کے ساتھ ماضی کو بهلا کر تعلقات کا نیا باب شروع کرنے کو تیار ہے۔

گزشته برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان جنگ کی نئی پالیسی کے بعد سے یہاں خون خرابے میں نمایاں اضافه دیکها جارہا ہے، جس دوران طالبان نے بالخصوص دارالحکومت کابل کو خودکش اور مسلح حملوں کا ہدف بنا رکها ہے جبکه افغان اور امریکی افواج نے طالبان کے خلاف ملک بهر میں زمینی اور فضائی کارروائیاں تیز تر کر دی ہیں۔