1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان سے افواج کے انخلاء پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں

19 فروری 2021

نیٹو کے سکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ افغانستان سے افواج کا انخلاء کب اور کیسے ہو اس بارے میں رکن ممالک ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3pZyn
Belgien Treffen NATO-Verteidigungsminister digital | Jens Stoltenberg
تصویر: Olivier Hoslet/AP Photo/picture alliance

مغربی دفاعی اتحاد، نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے جمعرات کے روز کہا کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء اور اس کے وقت کے بارے میں نیٹو نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کے تحت جو معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت ممکنہ واپسی کی آخری تاریخ یکم مئی تک مقرر کی گئی تھی۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے گیارہ ستمبر کو ٹوئن ٹاور پر حملے کے بعد سن 2001 میں افغانستان پر دھاوا بولا تھا اور تب سے یہ جنگ جاری ہے۔ اب تک اس پر سینکڑوں ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں اور اب نیٹو کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود بھی جمہوریت کی راہ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

فوج کے انخلاء کا مقررہ وقت قریب ہے 

ناروے کے سابق وزیر اعظم نے برسلز میں دفاعی امور کے تمام وزرا کی ایک میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''ہمیں بہت ساری گومگو صورتحال کا سامنا ہے اور کوئی آسان متبادل بھی موجود نہیں ہیں۔ اگر ہم یکم مئی کے بعد رکتے ہیں تو اس سے تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے، ہماری ہی افواج پر مزید حملوں کا خطرہ ہے۔ لیکن اگر ہم نکلتے ہیں تو جو پیش رفت ہم نے کی ہے اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔''

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان سے جو معاہدہ ہوا تھا اس میں فوج کی انخلاء کی تاریخ یکم مئی طے پائی تھی تاہم کابل سمیت افغانستان میں حالیہ متعدد ہلاکت خیز حملوں کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ فوج کے انخلاء میں جلد بازی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ 

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ معاہدے کے تحت طالبان نے جو وعدے کیے ہیں انہیں اس پر مکمل طور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں پیش رفت، تشدد میں کمی اور عالمی طور پر تسلیم شدہ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط ختم کرنے جیسی شرائط شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ''نیٹو کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغانستان دوبارہ ایسے دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے پائے جو ہمارے اندرونی علاقوں کو نشانہ بنائیں۔'' 

امن معاہدے کی پابندی پر زور

جرمن وزیر دفاع  اینیگریٹ کرامپ کارین باؤر نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ طالبان کو گزشتہ برس کے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل کرنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

جمعرات کو ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا اگر یکم مئی کے بعد بھی نیٹو افواج افغانستان میں رکتی ہیں تو تشدد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہ تو واضح ہے اور طالبان نے اس کا اعلان بھی کر رکھا ہے کہ اگر 30 اپریل تک انخلا نہ ہوا تو بین الاقوامی افواج اور ہمارے لیے بھی بڑی حد تک خطرات کی سطح میں اضافہ ہو جائیگا۔''   

ٹیٹو بناتی افغان خاتون

ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکین نے جمعرات کے روز افغان صدر اشرف غنی سے بات چیت میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ آخر بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ کے امن معاہدے کا از سر نو جائزہ کس طرح سے لے سکتی ہے۔

اس حوالے سے امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ افغانستان میں، ''ایک منصفانہ اور پائیدار سیاسی تصفیے کے لیے مستقل اور جامع جنگ بندی کی ضرورت ہے۔''

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ٹوئن ٹاور پر دہشتگردانہ  حملے کے بعد سن 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا تب سے اس جنگ میں چالیس ہزار سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوچکے ہیں اور جنگ پر اربوں ڈالر کی رقم خرچ ہوچکی ہے۔

گزشتہ ستمبر میں قطر کی ثالثی میں ہونے شروع ہونے والے بین الاقوامی امن مذاکرات کے باوجود افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کی جانب سے حملے ہوتے رہے ہیں۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)   

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں