1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں ایک اور گیسٹ ہاؤس پر حملہ، نو ہلاکتیں

عدنان اسحاق2 جون 2015

افغانستان میں چیک جمہوریہ سے تعلق رکھنے والی ایک امدادی تنظیم کے نو افغان کارکن ایک حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

https://p.dw.com/p/1Faap
تصویر: Getty Images/AFP/C. Khan

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شدت پسندوں نے شمالی افغان صوبے بلخ میں ایک گیسٹ ہاؤس کو نشانہ بنایا۔ صوبائی پولیس کے نائب سربراہ عبدالرزاق قادری نے اے ایف پی کو بتایا،’’صوبہ بلخ کے زاری ضلع میں ہلاک ہونے والوں میں سے سات امدادی کارکن ہیں، جن میں سے ایک خاتون اور چھ مرد تھے جبکہ شدت پسندوں نےدو محافظوں کو بھی ہلاک کر دیا ہے۔‘‘ انہوں نے اس حملے کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی ہے۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق چیک جمہوریہ کی People in Need نامی غیر سرکاری امدادی تنظیم سے تھا۔ PiN یا پِن کے نام سے مشہور یہ تنظیم 2002ء سے افغانستان میں فعال ہے اور مختلف دور دراز علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

افغانستان کے لیے پِن کے ڈائریکٹر روز ہولسٹر نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’بدقسمتی سے گزشتہ شب نامعلوم مسلح افراد نے زاری میں گیسٹ ہاؤس پر حملہ کرتے ہوئے ہمارے نو ملازمین کو ہلاک کر دیا۔‘‘ ہولسٹر کے بقول ان سب افراد کو سوتے ہوئے ان کے بستروں میں گولی مار دی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ حکام کی جانب سے انہیں سلامتی کی خراب صورتحال یا حملے کے خطرے کے بارے میں پیشگی طور پر آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

Symbolbild Anschlag Afghanistan
تصویر: Reuters/M. Ismail

افغانستان میں طالبان کی جانب سے امدادی تنظیموں پر حملے نہ کرنے کے اعلان کے باوجود بین الاقوامی تنظیموں کے کارکنوں پر ایسے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی کچھ ہفتے پہلے ہی طالبان نے دارالحکومت کابل میں ایک گیسٹ ہاؤس پر حملہ کرتے ہوئے 14 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی تھے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے رابطہ کار مارک بوڈن نے حالیہ حملوں کے تناظر میں کہا، ’’افغانستان امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے مشکل ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کارکنوں پر حملوں کے علاوہ انہیں اغوا اور قتل کرنے کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔‘‘

گزشتہ برس افغانستان میں کل 57 امدادی کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس ملک میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی تمام کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال وہاں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ملک میں امن و امان کے ناقص انتظامات کے باعث اور شدت پسندی پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومتی نااہلی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ابھی تک وزیر دفاع کے اہم ترین منصب کے لیے کسی وزیر کا انتخاب نہیں کیا جا سکا۔