جنرل راحیل نے افغانستان اور امریکا سے مدد کریں مانگ لی
21 جنوری 2016پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے سربراہ لفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے جمعرات کو افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور امریکی اور اتحادی افواج کے خصوصی مشن کے سربراہ جنرل جان کیمبل سے فون پر الگ الگ بات چیت کی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ ابھی تک کی تفتیش کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک کمانڈر نے افغان علاقے اور افغانستان کی ایک کمپنی کی موبائل فون سروس استعمال کرتے ہوئے چارسدہ میں دہشت گردانہ حملے کی نگرانی کی۔ فوجی ترجمان کے مطابق جنرل راحیل شریف نے افغان صدر ،چیف ایگزیکٹو اور امریکی فوج کےکمانڈر کے ساتھ فون پر اس بارے میں معلومات فراہم کیں۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ میں قائم باچا خان یونیورسٹی پر بدھ 20 جنوری کو ایک دہشت گردانہ حملے میں ایک پروفیسر اور طالب علموں سمیت بیس افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
سکیورٹی فورسرز کی جوابی کارروائی میں چار حملہ آور مارے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد بدھ کی شام لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والے حملہ آوروں سے دو موبائل فون برآمد ہوئے جس کا ڈیٹا حاصل کیا جا چکا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق، دہشت گردوں کے پاس افغانستان کی سمیں تھیں اور ایک دہشت گرد کے ہلاک ہونے کے بعد بھی اس کے فون پر کالز آ رہی تھیں۔
صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ اکھٹی ہونے والی معلومات حساس نوعیت کی ہیں جو فی الحال شیئر نہیں کی جا سکتیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردانہ حملے میں ڈیڑھ سو ہلاکتوں کے بعد اگلے ہی روز پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر کابل پہنچے تھے۔ جہاں انہوں نے افغان حکام سے ملاقاتوں میں آگاہ کیا تھا کہ پشاور سکول پر حملے میں ملوث دہشت گرد افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں تھے۔
تجزیہ کار اور جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ کچھ پاکستانی اخبارات اور نیوز چینلز نے اپنے ذرائع کےحوالے سے یہ خبر بھی دی ہے کہ چار سدہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کو جلال آباد میں قائم بھارتی قونصل خانے سے ساٹھ لاکھ روپے کی رقم بھی فراہم کی گئی تھی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اس کی تفتیش ہونی چاہیے ورنہ ایسی خبروں سے تین پڑوسی ممالک کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’بھارت نے اپنے پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملے کے حوالے سے معلومات پاکستان کو مہیا کیں تو اس نے تفتیش شروع کر رکھی ہے اگر پاکستان بھی ایسی قابل عمل معلومات افغانستان کے ساتھ شیئر کرے تو پاکستانی اور افغان حکام چار سدہ حملے کی مشترکہ تحقیقات کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘
انہوں نے کہا کہ چار سدہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا عمر منصور پاکستانی طالبان کا کمانڈر ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے بہت سے قبائلی علاقوں میں افغان موبائل فون کمپنیوں کی سمیں پوری طرح سے ایکٹیو رہتی ہیں۔ حامد میر کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایسے ٹھوس شواہد پیش کرے جن کو کسی بھی فورم پر جھٹلانا ممکن نہ ہو۔
دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے چارسدہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کی فنگر پرنٹس کے ذریعے شناخت کا عمل مکمل کر کے مکمل رپورٹ وزیرِ داخلہ کو پیش کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چار میں سے دو دہشت گردوں کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں جبکہ وزیرِداخلہ نے انٹیلی جنس اداروں اور سکیوررٹی اداروں سے مذکورہ معلومات شیئر کرنے کی ہدایت کی ہے۔