1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

’افغانستان، امریکا سے بہت دور ہے‘

10 ستمبر 2021

نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں نے دنیا بھر پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ ان حملوں کے بعد افغانستان اور اس کے شہریوں کی معاشرت کو بھی حیران و پریشان کن تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

https://p.dw.com/p/40AJ6
Afghanisten | US-Soldaten am Flughafen in Kabul
تصویر: Isaiah Campbell/US MARINE CORPS/AFP

جب بیس برس قبل امریکا میں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملے رونما ہوئے تھے تب افغانستان اور اس کے لوگوں کو القاعدہ کا بھی داخلی طور پر سامنا تھا اور اس تنظیم کی موجودگی کسی المیے سے کم نہیں تھی۔

ان حملوں سے صرف دو روز قبل افغان مزاحمت کا نشان سمجھے جانے والے ناردرن آلائنس کے رہنما احمد شاہ مسعود کو القاعدہ کے عسکریت پسدوں نے ایک خودکش حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔ مسعود کا کردار سوویت فوج کشی کے دوران بھی قابل تعریف خیال کیا جاتا تھا۔

احمد شاہ مسعود کی ہلاکت اور پھر نائن الیون

نو ستمبر سن 2001 کو احمد شاہ مسعود کو ایک حملے میں القاعدہ کے جنگجوؤں نے ہلاک کر دیا تھا اور ہھر دو ہی روز بعد یعنی گیارہ ستمبر کو امریکا کے مختلف مقامات پر کمرشل ہوائی جہازوں کے کاک پٹ کا کنٹرول حاصل کر کے دہشت گردوں نے انہیں عمارتوں سے ٹکرا دیا تھا۔ ان حملوں میں تین ہزار کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔

Afghanistan | Al Kaida Kämpfer
افغان شہریوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ ان کے ملک میں ٹھکانا بنائے ہوئے تھیتصویر: AFP/Getty Images

جب یہ واقعات رونما ہوئے تو افغان شہریوں نے ان کا بظاہر نوٹس شدت کے ساتھ نہیں لیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں امریکا کا ملک افغانستان سے بہت دورہے اور کسی حملے کا کوئی امکان نہیں۔

سابق حکومتی ملازم عبد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکا پر حملے کی خبریں گیارہ ستمبر کی شام کو سنی تھیں لیکن اس کی پرواہ نہیں کی کیونکہ امریکی ٹھکانوں پر حملے اور اس کی جوابی کارروائیوں کی خبریں آتی رہتی تھی اور اسی انداز میں افغانستان پر ممکنہ امریکی حملے کی خبر بھی سنی مگر پریشان اس لیے نہیں ہوا کہ مجھے احساس تھا کہ ان کا ملک امریکا سے بہت دور ہے۔

القاعدہ اور بیس برس قبل کے حکمران

نائن الیون کے حملوں کے وقت افغان شہریوں کو یہ تو معلوم تھا کہ ان کے ملک پر سخت گیر طالبان حکومت کر رہے ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ القاعدہ بھی ان کے ملک ہی میں ڈھیرے ڈالے ہوئے تھی۔ یہی القاعدہ امریکا پر حملوں کی ماسٹر مائنڈ تھی۔

افغان شہر قندھار کے لائبریرین عبد الصمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اخبارات کے اسٹالوں پر لوگوں کو امریکا پر حملوں کی خبریں پڑھتے دیکھا اور کئی لوگ ان پڑھ افراد کو اونچی آواز میں پڑھ کر خبریں سنا رہے تھے۔

USA | Terroranschlag am 11. September 2001
نائن الیون حملوں کی تصاویر افغانستان کے مختلف شہروں کے اخبارات میں دو دن بعد چھپی تھیںتصویر: picture-alliance/ dpa

عبد الصمد کے مطابق نائن الیون حملوں کی تصاویرشہر کے اخبارات میں دو دن بعد چھپی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تبھی احساس ہو گیا تھا کہ یہ حملے ایک نئی ناقابل قبول صورت حال کا آغاز تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا ان کے ملک پر حملے کے بہانے تلاش کر رہا تھا اور ایک بہانے کو لے کر وہ اس ملک پر قابض ہوا تھا۔

القاعدہ کے لیڈر کی حوالگی کا امریکی مطالبہ

امریکا نے طابان سے کہا کہ القاعدہ تنظیم امریکی حملوں میں ملوث ہے اور اس کے لیڈر اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کیا جائے مگر طالبان نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا طالبان سن 1996 سے افغانستان پر حکومت قائم کیے ہوئے تھے۔

قندھار کے ایک تالا ساز قیام الدین کا کہنا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں داخل ہو کر ایک نئی پریشانی اور مصیبت کھڑی کر دی تھی۔ ان کے مطابق جنگ نے طول پکڑا اور طالبان نے پھر سَر اٹھا لیا اور انسانوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ قیام الدین کے مطابق لوگ مہاجرت اختیار کر کے پاکستان اور ایران گئے لیکن پھر بہت سارے واپس لوٹ آئے کیونکہ انہیں وہاں اور شدید مسائل کا سامنا تھا۔

طالبان اور لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ مصیبت آنے والی ہے

ایک اسکول ٹیچر نور اللہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے ملک میں ٹیلی وژن کو غیر اسلامی قرار دے کر اس کے دیکھنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے نائن الیون کی خبریں اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپ کر ٹیلی وژن پر دیکھی تھیں۔

Russland Afghanistan l PK der Anführer der Taliban-Bewegung in Moskau
بیس برس قبل کے طالبان دوبارہ افغانستان کے حکمران بن گئے ہیںتصویر: Dimitar Dilkoff/AFP

نور اللہ کے مطابق انہیں احساس ہو گیا تھا کہ ایک بڑی مصیبت آنے والے ہے لیکن عام لوگوں اور حکمرانوں کو یقین تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ نور اللہ نے مزید کہا کہ انجام کار امریکی داخل ہو گئے اور طالبان کو اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کے زوال سے ایک احساس پیدا ہوا کہ سب لوگ کم از کم آزادی سے سانس تو لے سکیں گے۔ اسکول ٹیچر نے بتایا کہ حقیقت میں امریکا ایک غلط مقام پر پھنس کر رہ گیا اور اسے اس میں سے نکلنے میں بیس برس لگے اور طالبان پھر واپس لوٹ آئے۔ نور اللہ کے مطابق پھر سے وہی چہرے اور لوگ اپنے پرانے رویوں کے ساتھ حکومت میں ہیں۔

ع ح/ع ت (اے ایف پی)