1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: اسپیشل آپریشن یونٹس کو سی آئی اے کے کنٹرول میں دینے پر غور

4 مارچ 2012

پینٹاگون کے سینئر حکام 2014ء کے بعد افغانستان میں اسپیشل آپریشن یونٹس کو سی آئی اے کے کنٹرول میں دینے پر غور کر رہے ہیں تا کہ بین الاقوامی فوج کے انخلاء کے بعد جنگ زدہ ملک میں ان کی موجودگی کم سے کم نظر آئے۔

https://p.dw.com/p/14Ei0
تصویر: picture-alliance/Landov

اگر اس منصوبے کی منظوری دے دی گئی تو امریکی بحریہ کی SEALs ٹیمیں، رینجرز اور دیگر خصوصی دستے سی آئی کے کنٹرول میں چلے جائیں گے اور جاسوس کہلائیں گے۔

وزارت دفاع کے ایک سینئر انٹیلی جنس اہلکار کی جانب سے یہ تصور ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب امریکی دفاعی سربراہان اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ وائٹ ہاؤس کی افغانستان سے افواج کے انخلاء کی 2014ء ڈیڈ لائن کو پورا کرنے کے لیے کیسے تیزی سے کام کیا جائے۔

بعض سینئر اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 20,000 سے کم رہ جائے گی۔

پینٹاگون کے ترجمان جارج لٹل نے اس بات کی تردید کی کہ اس قسم کے کسی منصوبے پر غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’امریکہ کی اسپیشل آپریشن فورسز دنیا بھر میں درپیش قومی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرتی رہیں گی۔‘‘

Afghanistan Nächtliche Razzia
افغانستان میں اسپیشل آپریشن فورسز کی جانب سے رات کو مارے جانے والے چھاپوں پر تنقید ہوتی رہی ہےتصویر: AP

اگرچہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کرنے سے وائٹ ہاؤس اور افغان حکومت کو سیاسی فائدہ پہنچے گا مگر اس کے مضمرات بھی ہیں۔ اس اقدام سے ان فورسز کی نگرانی وائٹ ہاؤس، اعلٰی انٹیلی جنس عہدیداروں اور کانگریس کی چند کمیٹیوں تک محدود رہ جائے گی اور امریکی عوام یہ نہیں جان سکیں گے کہ ان فورسز کی کارروائیوں کی نوعیت اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کیا ہیں۔

اس وقت اسپیشل آپریشن یونٹس کو صرف اسی وقت سی آئی اے کے زیر کنٹرول دیا جاتا ہے جب امریکا کوئی ایسی کارروائی کرنا چاہتا ہو جس کی وہ بعد میں تردید کر سکے۔ اس طرح کے اکثر آپریشن مقامی حکومتوں کو آگاہ کیے بغیر کیے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ برس مئی میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی کارروائی کی گئی۔

افغانستان میں ان یونٹس کو سی آئی اے کے کنٹرول میں دینے کا خیال صدر حامد کرزئی کے لیے بھی پرکشش ہو گا کیونکہ پھر وہ کہہ سکیں گے کہ ان کے ملک میں غیر ملکی فوجیوں کی تعداد کم ہو چکی ہے۔ تکنیکی لحاظ سے ان کی یہ بات درست بھی ہو گی کیونکہ پھر وہ اہلکار جاسوس تصور ہوں گے اور کسی امریکی فوجی کمانڈر کی بجائے کابل میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کو جوابدہ ہوں گے۔

US-Spezialeinheit Navy Seals
گزشتہ برس مئی میں اسامہ بن لادن کو اسپیشل آپریشن فورسز نے سی آئی کے زیر کنٹرول ایک کارروائی میں ہلاک کیاتصویر: AP

اے پی کے مطابق افغان حکام اور عوام کا رویہ اسپیشل آپریشن دستوں کے مقابلے میں سی آئی اے کے ساتھ کہیں دوستانہ ہے۔ اسپیشل آپریشن دستوں کی خاص طور پر رات کے وقت کارروائیوں کو افغانستان میں کافی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ افغان حکام ملک میں آنے والے صحافیوں کو یہ بتانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں کہ وہ باقاعدگی سے ’حکومت کے دوسرے ادارے‘ کے لیے کام کرتے ہیں جس سے مراد سی آئی اے کو لیا جاتا ہے۔

سی آئی اے کے موجودہ سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس کو اس وقت یہ فکر لاحق ہے کہ دنیا میں مختلف کارروائیوں کے لحا‌ظ سے ان کے اہلکاروں کی تعداد کم ہے۔ سی آئی کے پیرا ملٹری Special Activities Division کے اہلکاروں کی تعداد محض چند سو ہے اور سی آئی اے میں کل پانچ ہزار افراد کام کرتے ہیں۔

رپورٹ: حماد کیانی / اے پی

ادارت: شامل شمس