1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: اختلافات کے باعث حکومت کی تشکیل میں تاخیر

امتیاز احمد13 نومبر 2014

افغان صدر کو حلف اٹھائے کئی ہفتے گزر چکے ہیں لیکن اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے مابین طاقت اور اختیارات کی کشمکش کے باعث ابھی تک نئی کابینہ تشکیل نہیں پا سکی ہے اور اس میں ابھی مہینے نہیں تو ہفتے ضرور لگ سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DmMK
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

افغان صدر اشرف غنی نے اپنے عہدے کا حلف ستمبر میں اٹھایا تھا۔ اس سے پہلے ان کے حریف امیدوار عبداللہ عبداللہ نے انتخابات میں اپنی جیت کا دعویٰ کر دیا تھا لیکن بعدازاں انہوں نے ایک متحدہ حکومت کے قیام پر اتفاق کر لیا تھا۔ امریکا کی ثالثی اور حمایت سے طے پانے والی اُس ڈیل کو کسی ہفتے گزر چکے ہیں، جس کے تحت سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹیو بنایا جانا تھا تاہم نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے ابھی تک کوئی سمجھوتہ طے نہیں پا سکا ہے۔

افغان صدر اشرف غنی دسمبر کے اوائل میں برطانیہ کے زیر اہتمام لندن میں منعقدہ ایک کانفرنس سے پہلے پہلے ایک فعال حکومت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اس کانفرنس میں ڈونر ممالک اور تنظیموں کو افغانستان کو اربوں ڈالر کی امداد دینے کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے قائل کر سکیں تاہم ایسا نظر آتا ہے کہ تب تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔

دونوں ٹیموں کے معاونین کا کہنا ہے کہ چھبیس عہدوں پر ابھی تک کشمکش چل رہی ہے اور ابھی تک اس بارے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا ہے کہ فوج اور پولیس کی قیادت کون کرے گا، انٹیلجنس ایجنسی کی قیادت کسے سونپی جائے گی اور ملک کے مالی معاملات کی نگرانی کون کرے گا۔

روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کابل میں مقیم ایک تجزیہ کار احمد سیدی نے کہا:’’دونوں کیمپوں میں اختلافِ رائے ہی اتنا زیادہ ہے کہ لندن کانفرنس سے پہلے پہلے پوری کابینہ کے ناموں پر اتفاق ہو جانا ناممکن نظر آتا ہے۔ ہم توقع کر رہے ہیں کہ اگلے برس موسمِ بہار تک نئی کابینہ تشکیل پا جائے گی۔‘‘

غنی کے ایک مشیر داؤد سلطان زوئے نے کہا کہ ’ابھی ناموں پر بات کرنا بہت قبل از وقت ہے‘۔ عبداللہ کے ایک ترجمان کے مطابق ابھی دونوں فریقوں کے مابین اس بات پر اختلافات موجود ہیں کہ شراکتِ اقتدار کے سمجھوتے کی شرائط کی تشریح کیسے کی جائے۔

حکومت کی تشکیل کے عمل کو تیز تر کرنے کے لیے عبداللہ عبداللہ کے حامیوں نے تجویز پیش کی تھی کہ عددی اعتبار سے کابینہ کی تقرریاں صدر اور چیف ایگزیکٹیو کے درمیان برابر برابر تقسیم کر دی جائیں تاہم غنی کی ٹیم کی جانب سے اس تجویز کو فوری طور پر رَد کر دیا گیا۔

عبداللہ عبداللہ دھڑے کے تمام تر اعتراضات کے باوجود غنی ایک کلیدی عہدے یعنی قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر اپنے ایک انتہائی قابل اعتماد ساتھی حنیف اتمار کو نامزد کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

پارلیمان کے اسپیکر عبدالرؤف ابراہیمی نے کہا:’’متحدہ حکومت کے قیام کو اب تقریباً دو ماہ ہونے کو آئے ہیں لیکن ابھی تک کابینہ قائم نہیں ہو سکی ہے۔ مختلف وزارتوں کے قلمدان جن لوگوں کو عارضی طور پر دیے گئے ہیں، وہ اپنے کام میں تقریباً کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔‘‘