1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان کانفرنس کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ختم، تبصرہ

عاطف توقیر5 دسمبر 2014

افغانستان کے موضوع پر لندن میں بین الاقوامی کانفرنس غیرحکومتی اور امدادی تنظیموں اور عالمی رہنماؤں نے ملاقاتوں میں افغانستان کے مستقبل پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس بارے میں ڈی ڈبلیو ایشیا سے وابستہ فلوریان وائگانڈ کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/1DzkG
تصویر: DW/P. Henriksen

جب آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے، تو آپ ایک اسٹڈی گروپ بنا لیتے ہیں اور اعلیٰ سطح پر اسے ایک کانفرنس کا نام دے دیا جاتا ہے۔ افغانستان کو درپیش مسائل کے حوالے سے لندن میں دو روزہ کانفرنس اختتام پزیر ہو گئی ہے۔

ایک ایسے موقع پر جب افغانستان سے غیرملکی جنگی فوجی مشن اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے سوالات کے جوابات دور رس اثرات کی سوچ اور اقدامات سے وابستہ ہیں، لندن میں عالمی رہنماؤں، غیر حکومتی تنظیموں اور امدادی ایجنسیوں کے وفود نے دو روزہ افغانستان کانفرنس میں شرکت کی۔

افغانستان میں 13 برس تک رہنے والی غیرملکی فوجی موجودگی کے باوجود اب بھی افغانستان کی معیشت کا نوے فیصد انحصار غیرملکی امداد پر ہے جب کہ بدعنوانی، جرائم اور سیاسی وجوہات کی بنا پر وقوع پزیر ہونے والا تشدد اب بھی افغانستان کے استحکام اور مستقبل پر سوالات کھڑے کر رہا ہے۔

Symbolbild Hilfsorganisationen in Afghanistan
افغانستان کے موضوع پر یہ اہم کانفرنس بغیر کسی بڑی پیش رفت کے ختم ہو گئیتصویر: picture alliance/Tone Koene

آج سے تقریباﹰ تین ہفتے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی تاریخ کے اس سے مہنگے فوجی تجربے کا اختتام ہو رہا ہے اور افغانستان میں قائم مختلف فوجی اڈوں میں تعینات نیٹو فوجی واپسی کا رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ تاہم افغانستان میں تشدد کے واقعات میں نمایاں تیزی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا 13 برس تک خرچ کیے جانے والے اربوں ڈالر اور امدادی سرمایہ رائیگاں گیا؟

ظاہر ہے، یہ کہنا تو درست نہ ہو گا کہ سب کچھ رائیگاں گیا۔ افغانستان میں بے شمار اسکول قائم کیے گئے ہیں اور خصوصاﹰ لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں خاصی بہتری آئی ہے۔ افغانستان میں ایک متنوع میڈیا پیدا ہوا ہے اور وہاں لوگ اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے دیگر ممالک کے لوگوں سے جڑ چکے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ افغان عوام تمام تر خطرات اور دھمکیوں کے باوجود انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ جمہوریت چاہتے ہیں۔

تاہم لندن کانفرنس میں افغانستان کے لیے بین الاقوامی ڈونرز اور رہنماؤں نے کوئی نیا وعدہ نہیں کیا۔ افغان این جی او اور غیرملکی امدادی ایجنسیوں کو خدشات ہیں کہ مستقبل میں انہیں وسائل دستیاب نہیں ہوں گے۔ مغربی حکومتیں اب بھی افغانستان میں خاصا سرمایہ خرچ کر رہی ہیں، تاہم سول سوسائٹی اور جمہوریت کی ترقی کے حوالے سے بڑی حد تک کٹوتیاں بھی کی گئی ہیں، کیوں کہ وہ ایسے شعبوں میں سرمایہ خرچ کرنا چاہتے ہیں، جو نظر آئے اور وہ اپنے ہاں ٹیکس دہندگان کو یہ بتا سکیں کہ وہ وہاں کچھ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ جرمنی کی جانب سے بھی افغنستان سڑکوں، توانائی، ہسپتالوں اور سلامتی کے شعبے میں کئی ملین ڈالر سرمایہ مہیا کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔

افغانستان کے لیے متعدد ترقیاتی پروگرامز شروع کرنے کے وعدے تو کئے گئے ہیں لیکن افغانستان کے جمہوری مستقبل کی ضمانت سول سوسائٹی کی مضبوطی سے وابستہ ہے، تاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ غیرملکی فوجی انخلا کے بعد افغان صحافیوں، لبرل اساتذہ اور دیگر عناصر کے لیے ایسا ماحول برقرار رہے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔