1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان نوجوانوں ميں بدلتے رجحانات

16 فروری 2012

افغانستان ميں نوجوان نسل کے لڑکے مغربی طرز کے فيشن اپناتے ہوئے دکھائی دے رہے ہيں۔ ملک ميں مردوں کے درميان اپنے حليے اور ظاہری وضع قطع کے حوالے سے بدلتے رجحانات، بدلتے ہوئے معاشرتی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1447N
تصویر: bezhan zafarmal

کابل کی سڑکوں پر ان دنوں بالوں کے اسٹائل اور وضع قطع کو بہتر بنانے والے مردوں کے ’سيلونز‘ کا کاروبار دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ نوجوان لڑکے اپنے پہننے اوڑھنے سے لے کر اپنے بالوں، داڑھيوں کے انداز اور چہرے کی دکھاوٹ پر خصوصی توجہ دے رہے ہيں۔ يہ افغانستان ميں ايک نيا رجحان ہے جہاں طالبان حکومت کی برطرفی کے بعد گزشتہ چند سالوں ميں نوجوان نسل اپنے آپ کو آزاد محسوس کرنے لگی ہے۔ کابل کے مقابلے ميں ديگر شہروں ميں يہ رجحان اتنا عام نہيں ہے، ليکن مجموعی طور پر ملک بھر ميں نوجوان نسل کے لڑکے، لڑکياں نت نئے طرز اور فيشن اپنا رہے ہيں۔

علی رضا کابل کی ايک ایسی ہی دکان ’دی سيلون‘ ميں ’ہيئر اسٹائلسٹ‘ کے طور پر کام کر رہے ہيں۔ ان کا ماننا ہے کہ عام طور پر افغان مردوں کو لمبے بال، لمبی داڑھيوں والے غصيلے مرد تصور کيا جاتا ہے جبکہ حقيقت اس سے برعکس ہے۔ علی رضا نے مزيد کہا، ’’ ميں نے اسٹائلسٹ بننے کا فيصلہ اس ليے کيا تاکہ ميں اس تاثر کو غلط ثابت کر سکوں۔‘‘ ان کے مطابق افغان لڑکے دکھنے ميں اچھے ہوتے ہيں اور گزشتہ چند سالوں ميں فيشن کے حوالے سے ان کا انتخاب تبديل ہو رہا ہے۔ 25 سالہ علی رضا طالبان دور ميں متعدد دوسرے نوجوان لڑکوں کی طرح ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ انہوں نے بھارت ميں اپنی خواہشات پوری کرتے ہوئے ہيئر اسٹائلنگ سيکھی اور اب حالات بہتر ہونے کے بعد افغانستان واپسی کا فيصلہ کيا۔

سيد مہدی نامی ايک اور 22 سالہ اسٹائلسٹ نے کہا، ’’ اکثر لڑکے يہاں بولی ووڈ، ہالی ووڈ اور يورپی مالک کے مشہور اداکار، کھلاڑيوں اور ديگر شخصيات کی تصويريں لے کر آتے ہيں اور اسی طرز کے بال اور داڑھياں بنانا چاہتے ہيں۔‘‘

افغانستان ميں گزشتہ 30 سال سے جنگوں کا سلسلہ جاری ہے
افغانستان ميں گزشتہ 30 سال سے جنگوں کا سلسلہ جاری ہےتصویر: AP

سال 2009 ميں افغانستان ميں America's Next Top Model کی طرز کا پہلا ٹيلی وژن پروگرام نشر کيا گيا تھا۔ اس پروگرام ميں جج کی حيثيت سے حصہ لينے والے نصير احمد نورانی کا کہنا ہے کہ وہ پروگرام کے ليے نوجوانوں کا جوش و خروش ديکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ انہوں نے مزيد بتايا، ’’ٹيلی وژن پروگرام ميں حصہ لينے کے ليے ہزاروں کی تعداد ميں لڑکے، لڑکياں جمع ہوئے تھے۔‘‘ نصير احمد نورانی کے مطابق پروگرام ميں حصہ لينے کے خواہشمند افراد ميں بھاری تعداد لڑکوں کی تھی۔

دوسری جانب نوجوان نسل کی بدلتی سوچ کے ساتھ ساتھ ملک بھر ميں قدامت پسند سوچ کے حامل افراد بھی موجود ہيں۔ کابل سے تعلق رکھنے والےملاء نقيب اللہ نوجوان نسل کے ان نئے رجحانات کو اسلام کے خلاف اور افغانستان کے ليے شرمناک قرار ديتے ہيں۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’ ان لوگوں کو سزا ملنی چاہيے اور طالبان کو معلوم ہے کہ ايسے افراد کے ساتھ کيسا رويہ اختيار کرنا چاہيے۔‘‘

افغانستان ميں گزشتہ 30 سال سے جاری جنگوں کا سلسلہ سال 1979 ميں ہونے والی سوويت يونين کی جنگ کے ساتھ ہوا۔ دس برس بعد روسی افواج کی واپسی ہوئی تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور پھر نوے کی دہائی ميں طالبان زور ميں آئے۔ امريکہ ميں ستمبر گيارہ کے حملوں کے بعد امريکی اور نيٹو افواج کی کارروائيوں کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ ملک کے جنوبی اور مشرقی حصوں ميں اس وقت بھی جنگ جاری ہے ليکن کابل اور متعدد شہروں ميں اب نوجوان نسل اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتی ہے۔ افغانستان بدل رہا ہے۔

رپورٹ: عاصم سليم

ادارت: افسر اعوان