افغان مہاجرین، پاکستان کی ہمّت جواب دے چکی
10 مارچ 2015یہ کمیٹی نادرا، افغان مہاجرین کمشنریٹ، وفاقی حکومت اور افغان وزارت مہاجرین کے حکام پر مشتمل ہوگی۔ یہ اتفاق رائے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان وزیر برائے مہاجرین سید حسین علیمی بلخی اور افغان مہاجرین کے سب سے بڑے میزبان صوبے خیبر پختوانخوا کے گورنر ہاؤس میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔
پیر کو اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں خیبرپختونخوا کے گورنر سردار مہتاب احمد خان عباسی اور سرحدی امور کے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ، وزیراعلیٰ پرویز خٹک، سینیئر حکومتی عہدیداران اور افغان وفد کے اراکین شریک ہوئے۔
افغان وزیر برائے مہاجرین ایک ایسے موقع پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، جب پاکستانی حکومت نے سولہ دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے کے بعد افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ اور جبری واپسی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اندازوں کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں تقریباً چھ ہزار افغان باشندوں کو واپس ان کے وطن بھجوایا جا چکا ہے۔
پاکستان میں سرحدی امور کی وزارت کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان وفد کی کوشش ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے پاکستان سے مزید مہلت حاصل کی جا سکے۔
تاہم اس افسر کے مطابق گزشتہ تیس برسوں سے پندرہ لاکھ سے زائد اندراج شدہ اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں غیر اندراج شدہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والے پاکستان کی گنجائش اور ہمّت جواب دے چکی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی حکومت گزشتہ کئی سالوں سے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این سی ایچ آر اور افغان حکومت کی درخواست پر افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع کرتی آ رہی تھی تاہم وہ اس مرتبہ اکتیس دسمبر 2015 ءکو ختم ہونے والی اس ڈیڈ لائن میں توسیع کا ارداہ نہیں رکھتی۔
اسلام آباد میں یو این ایچ سی آر کے ایک ترجمان قیصر آفریدی کے مطابق ’رضا کارانہ واپسی کے پروگرام کے تحت دو ہزار دو سے لے کر اب تک اڑتیس لاکھ افغان مہاجرین افغانستان جا چکے ہیں جب کہ اس وقت پندرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں‘۔
افغان امور کے ماہر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ پشاور واقعے کے بعد افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کے لیے جو آواز یں اٹھنا شروع ہوئی تھیں، اب ان کی جھلک حکومتی پالیسی میں بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا:’’افغان مہاجرین کی یکدم واپسی کے سلسلے سے افغان حکام کو تحفظات لاحق ہیں اور اسی لیے وہ اس معاملے پر بات کرنے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ ان کی کوشش ہو گی کہ وہ مزید وقت حاصل کر سکیں اور اطلاعات کے مطابق وہ اس کے لیے مہاجرین کی واپسی کے ایک جامع منصوبے پر عملدرآمد کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن یہ پاکستانی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس بارے میں کیا جواب دیتی ہے۔‘‘
دریں اثناء افغان وفد نے منگل کے روز دفتر خارجہ میں پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز سے بھی ملاقات کی۔ یہ ملاقات اسلام آباد میں بدھ کے روز طے شدہ سہ فریقی کمیشن کے اجلاس سے قبل ہوئی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اس ملاقات میں افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی اور افغانستان میں پائیدار آباد کاری پر تبادلہٴ خیال کیا گیا۔
پاکستانی مشیر خارجہ نے مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے افغان حکومت کی طرف سے ایک جامع منصوبے کی تیاری پر اطمینان کا اظہار کیا۔
بیان کے مطابق افغان وزیر نے کہا کہ مہاجرین کی وطن واپسی افغان حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے تیس برسوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی اُن کے وطن آبادکاری کے لیے ٹھوس کوششیں کی جا رہی ہیں، جن میں واپس جانے والے خاندانوں کے لیے رہائشی پلاٹس، ملازمتیں، آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی اور ٹیکس فری سکیموں کا اجراء شامل ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے کے مطابق سہ فریقی کمیشن پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے نمائندوں پر مشتمل ہے اور اس کے اجلاس میں رجسٹرڈ مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کے معاملے پر تبادلہٴ خیال ہو گا۔