1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کے ہاتھوں ہزارہ شہریوں کا قتل جنگی جرم، ایمنسٹی

5 اکتوبر 2021

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق افغانستان میں طالبان فورسز نےغیرقانونی طور پر ہزارہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے 13 افراد کو قتل کردیا۔ ان میں سے بیشتر سابق افغان فوجی تھے، جو طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔

https://p.dw.com/p/41HZ2
Afghanistan Hazaras unter Beschuss
تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

 

منگل کے روز ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ طالبان جنگجوؤں نے 30 اگست کو مرکزی افغان صوبے دائی کنڈی کے گاؤں کاہور میں ہزارہ اقلیتی برادری کے 13 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں سے گیارہ افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے اراکین جبکہ دو عام شہری تھے، جن میں ایک 17 سالہ لڑکی بھی شامل تھی۔

قتل کے واقعات کب پیش آئے

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیقات کے مطابق افغانستان میں ہزارہ اقلیتی برادری کے اراکین کا قتل طالبان کے افغانستان پر قبضے اور سقوط کابل کے تقریباً دو ہفتے بعد ہوا۔ ایک ایسے وقت پر جب طالبان افغان عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ماضی میں، 90 کی دہائی میں جس طرح حکومت کرتے رپے تھے، اب وہ ایسا نہیں کریں گے اور اپنے رویے میں تبدیلی کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔

پسی ہوئی افغان اقلیت طالبان سے خوفزدہ

عالمی برادری اس وقت کابل حکومت پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور انتہائی سنجیدگی سے طالبان کی سرگرمیوں پر غور کر رہی ہے۔ خاص طور پر کابل میں طالبان کی نئی حکومت اور کابینہ کے اراکین کے ناموں کے اعلانات کے ساتھ ساتھ طالبان کے ان بیانات کا بھی گہرائی سے جائزہ لیا جا رہا ہے جس میں وہ روا داری، خواتین اور اقلیتوں کی شمولیت کا یقین دلا رہے ہیں۔ تاہم عملی طور پر طالبان نے اب تک اپنے اقدامات سے یہ ثابت نہیں کیا کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ خاص طور سے افغانستان میں خواتین پر لگنے والی نئی پابندیاں اور کابل میں حکومتی نظام پر صرف مردوں کی اجارہ داری جیسے اقدامات عالمی برادری کے لیے مایوسی کا سبب ہیں۔

Afghanistan | Anschlag auf die ethnische Minderheit Hazara
ہزارہ کمیونٹی افغانستان میں ہمیشہ خوف کے سائے میں رہیتصویر: AFP/Getty Images

صوبے دائی کنڈی میں کیا ہوا؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے 14 اگست کو جب دائی کنڈی صوبے کا کنٹرول سنبھالا، اس وقت ایک اندازے کے مطابق 34 سابق فوجیوں نے ضلع خضر میں ایک محفوظ مقام پر پناہ لے لی۔ ایسے سابق فوجی جن کے پاس حکومتی فوجی ساز و سامان اور اسلحہ موجود تھے، وہ ہتھیار ڈالنے پر راضی ہو گئے تھے۔

افغانستان کی ستم رسیدہ ہزارہ برادری اور طالبان کا دوسرا دور

افغانستان کی 36 ملین کی آبادی میں سے قریب نو فیصد ہزارہ باشندے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی نو منتخب سیکرٹری جنرل، جو انسانی حقوق کے امور کی ایک فرانسیسی ماہر ہیں، کے بقول، ''ہزارہ باشندوں کا سفاکانہ قتل اس امر کا ثبوت ہے کہ  طالبان انہی ہولناک پامالیوں میں مصروف ہیں، جن کی وجہ سے وہ اپنے سابقہ دور حکومت میں بھی بدنام تھے۔‘‘ ہزارہ باشندوں کے قتل سے متعلق ایمنسٹی کی رپورٹ سامنے آنے پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور بلال کریمی سے اس خبر رساں ایجنسی نے تبصرہ کرنے کے لیے کال کی، تو ایجنسی کو ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔

ایمنسٹی کے مطابق طالبان کی نئی انتظامیہ کی طرف سے  مقرر کردہ دائی کنڈی صوبے کی پولیس کے نئے چیف صادق اللہ عابد نے ہزارہ باشندوں کے کسی بھی قتل کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس صوبے میں ہونے والے ایک حملے میں طالبان کا ایک رکن مارا گیا۔

ہزارہ کون ہیں اور یہ کس سے فرار ہونا چاہتے ہيں؟

 Alltagsleben der Hazara in Bamian
بامیان میں آباد ہزارہ اقلیتی گروپ بھی اپنی بقا کی جنگ لڑتا رہا ہےتصویر: Ton Koene/imago images

تصاویر اور ویڈیو بطور ثبوت

سابق فوجیوں کے گروپ کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کا بندوبست کرنے والے محمد عظیم صداقت کے مطابق 30 اگست کو ایک اندازے کے مطابق 300 طالبان جنگجو ایک قافلے کی شکل میں ایک گاؤں کے قریب پہنچے، جہاں سکیورٹی فورسز کے اراکین موجود تھے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ اپنے خاندانوں کے ساتھ تھے۔ جیسے ہی سکیورٹی فورسز کے اراکین نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ علاقہ چھوڑنے کی کوشش کی، طالبان نے ان پر فائر کھول دیا۔ اس کے نتیجے میں معصومہ نامی ایک 17 سالہ لڑکی ماری گئی۔ ایک سابق فوجی نے جوابی فائر کیا، جس میں طالبان کا ایک جنگجو ہلاک اور ایک دوسرا زخمی ہو گیا۔

دھرنا ختم، شیعہ ہزارہ کمیونٹی لاشیں دفنانے پر تیار

اس دوران طالبان کی طرف سے مسلسل فائرنگ کی جاتی رہی۔ ایمنسٹی کے مطابق دو سابق فوجی ہلاک ہوئے۔ نو سکیورٹی اہلکاروں کو ہتھیار ڈال دینے کے بعد بھی طالبان ایک قریبی ندی کی طرف لے گئے اور وہاں لے جا کر انہیں قتل کر دیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ان ہلاکتوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں اسے ویڈیوز اور تصاویر بھی ملی ہیں، جن کی اس نے تصدیق بھی کر لی ہے۔

ک م / م م )اے پی، روئٹرز(