1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات، اونٹ کس کروٹ بيٹھے گا؟

عاصم سليم11 جنوری 2014

ايسی اطلاعات ہيں کہ افغانستان ميں قيام امن کے ليے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تازہ کوششيں جاری ہيں اور کچھ ملاقاتيں ہو چکی ہيں۔ تاہم باغی اور سياسی تجزيہ کار، دونوں ہی کو اِن کوششوں ميں کسی قسم کی کاميابی کی اميد نہيں ہے۔

https://p.dw.com/p/1AowT
تصویر: Aref Karimi/AFP/Getty Images

افغان طالبان کے ایک اہلکار نے نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹد پريس کو بتايا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت ميں شامل کم از کم دو وزراء نے متحدہ عرب امارات ميں طالبان کے نمائندوں کے ساتھ تازہ ملاقاتيں کی ہيں۔ تاہم اس اہلکار کے بقول يہ ملاقاتيں اور اِن ميں ہونے والی بات چيت بے نتيجہ رہیں۔ اس اہلکار نے خبر رساں ادارے سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان بالواسطہ ثالثی کے ليے تيار ہو سکتے ہيں، بشرطيہ کہ يہ ثالثی کوئی ايسا مذاکرات کار کرے، جو دونوں فريقين کے موقف کا خيال رکھے۔

کرزئی معاہدے پر دستخط کو عام انتخابات تک موخر کرنا چاہتے ہيں
کرزئی معاہدے پر دستخط کو عام انتخابات تک موخر کرنا چاہتے ہيںتصویر: Reuters

ادھر پاکستان افغانستان ميں قيام امن کے حصول کے ليے اپنی جيلوں سے طالبان قيديوں کی رہائی کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ البتہ پاکستان کے مشير برائے قومی سلامتی سرتاج عزيز نے اپنے ايک انٹرويو ميں کہا ہے کہ پاکستانی جيلوں سے طالبان قيديوں کی رہائی تاحال بے اثر رہی ہے اور اس کا طالبان پر اب تک کوئی اثر نہيں ہوا ہے۔ عزيز کے مطابق امريکا کے ساتھ باہمی سکيورٹی کے معاہدے پر اب تک دستخط نہ کرنے کے افغان صدر کرزئی کے فيصلے سے بھی طالبان کے موقف ميں کوئی تبديلی نہيں آئی ہے، حالانکہ اس سے بظاہر طالبان کو خوش ہونا چاہيے۔ انٹرويو ميں عزيز کا مزيد کہنا تھا، ’’طالبان ايسا سمجھتے ہيں کہ يہ سب ايک ڈرامہ ہے اور کرزئی اس معاہدے پر دستخط کر ديں گے۔‘‘

رواں برس کے اختتام تک افغانستان سے بين الاقوامی افواج کا انخلاء طے ہے۔ 2014ء کے بعد ملکی سکيورٹی ميں معاونت فراہم کرنے سميت افغان سکيورٹی دستوں کی تربيت اور ديگر کئی معاملات کے ليے واشنگٹن اور کابل کے درميان باہمی سکيورٹی کے معاہدے کو لازمی قرار ديا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کو حتمی شکل ديے جانے کے نتيجے ميں چند امريکی فوجی افغان سرزمين پر ہی تعينات رہ سکيں گے۔ تاہم قومی اور عالمی سطح پر دباؤ کے باوجود صدر کرزئی نے تاحال اس معاہدے پر دستخط نہيں کيے ہيں۔ وہ دستخط کو اپريل ميں ہونے والے انتخابات تک موخر کرنے کے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہيں۔

برسلز ميں قائم ’انٹرنيشنل کرائسس گروپ‘ سے تعلق رکھنے والے افغان امور کے ايک سينئر تجزير کار گريم اسمتھ کا کہنا ہے کہ ہر ايک اپنی مخصوص جگہ سے ہلنے کو تيار نہيں۔ نيوز ايجنسی اے پی کو ارسال کردہ ايک ای ميل پيغام ميں انہوں نے کہا کہ تمام فريقين سياسی تفريق کو دور کرنے ميں ناکام رہے ہيں۔ اسمتھ کا مزيد کہنا ہے، ’’باغی ہزاروں کی تعداد ميں بين الاقومی فوجيوں کو ملک چھوڑتے ہوئے ديکھيں گے اور وہ يہ سوچ بيٹھيں گے کہ اس پيش رفت سے عسکری توازن ان کے حق ميں چلا جائے گا۔ دوسری جانب حکومت يہ سوچے بيٹھی ہے کہ سرکاری دستے ملکی سکيورٹی کی ذمہ دارياں کاميابی کے ساتھ نبھا ليں گے۔‘‘ ’انٹرنيشنل کرائسس گروپ‘ سے تعلق رکھنے والے اس تجزير کار کے مطابق انخلاء کے فوری بعد جنگی ميدان میں فریقین کی تجربہ کاری ممکنہ تصادم کا سبب بن سکتی ہيں۔