1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کے حملے میں 28 پولیس اہلکار ہلاک

عاطف بلوچ17 فروری 2015

افغانستان میں سکیورٹی فورسز پر طالبان کے ایک تازہ حملے میں میں کم ازکم بائیس پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔ نیٹو کے افغان فوجی مشن کے خاتمے کے بعد سے طالبان کی طرف سے یہ پہلا بڑا حملہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1EdJN
تصویر: Farzana Wahidy/AFP/GettyImages

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی کابل سے موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ طالبان باغیوں نے منگل کے دن دارالحکومت کابل کے نواح میں واقع پلِ علَم نامی شہر کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا۔ صوبائی پولیس سربراہ عبدالحکیم اسحاق زئی نے بتایا کہ اس حملے میں نو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دسمبر کے آخر میں نیٹو کے افغان مشن کے اختتام کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز پر طالبان کا یہ پہلا بڑا حملہ ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز نے پیر کے دن چھ ضلعوں میں طالبان کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کی تھی۔ منگل کے دن کیا گیا طالبان کا یہ حملہ اس کارروائی کے جواب میں ہے۔ ادھت قندھار میں بھی چھ افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے اور یوں مجموعی طور پر ان دو دنوں میں 28 سکیورٹی اہلکار مارے گئے ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ پیر کے دن 76 شدت پسند ہلاک ہوئے تھے۔

Afghanische Polizistinnen
’افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے حملوں کو روکنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں‘ ماہرینتصویر: imago/Xinhua

افغان سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے شروع کیے گئے تازہ عسکری آپریشن کا مقصد طالبان کے گڑھ تصور کیے جانے والے علاقوں میں ان کا زور توڑنا ہے۔ اس آپریشن کے ایک کمانڈر جنرل عبدالخالق نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ آپریشن مکمل طور پر افغان سکیورٹی اور خفیہ اداروں کی طرف سے پلان کیا گیا ہے۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔‘‘

افغان سکیورٹی فورسز کے ان بیانات کے حوالے سے طالبان کی طرف سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ کابل میں ملکی وزارت دفاع کے مطابق غیر ملکی فوجی مشن کے خاتمے کے بعد افغان حکومت کے ’ذوالفقار‘ نامی اس آپریشن کے علاوہ دیگر مشن بھی ترتیب دیے گئے ہیں۔ فوجی ترجمان جنرل دولت وزیری نے بتایا، ’’طالبان کے خلاف افغان فوج کی طرف سے ترتیب دیا گیا یہ آپریشن نہ تو پہلا ہے اور نہ ہے آخری۔‘‘

نیٹو کے افغانستان مشن کے بعد کئی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے حملوں کو روکنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔ سابق افغان جنرل عتیق اللہ امرخیل نے اے ایف پی کو بتایا، ’’سن 2015 افغان سکیورٹی فورسز کے لیے امتحان کا سال ہو گا کیونکہ اب انہیں اپنے طور پر شدت پسندوں سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی اور افغان حکام جانتے ہیں کہ اس برس طالبان اپنے حملوں میں اضافہ کر دیں گے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس رونما ہونے والے تشدد کے نتیجے میں تین ہزار افغان شہری ہلاک ہوئے تھے، 2013ء کے مقابلے میں ہلاکتوں کی یہ شرح اٹھارہ فیصد زیادہ تھی۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ اسی طرح گزشتہ برس پانچ ہزار افغان فوجی اور پولیس اہلکار لقمہ اجل بنے تھے۔