1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کی دھمکیاں، خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم تحلیل

عاطف بلوچ25 دسمبر 2014

قدامت پسند ملک افغانستان میں خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کو تحلیل کر دیا گیا ہے لیکن اس شورش زدہ ملک میں خواتین کرکٹ ٹیم کی بانی ڈیانا بارکزئی پُرامید ہیں کہ ایک دن خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم پھر تشکیل دے دی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1E9sV
تصویر: DW/Hoshang Hashemi

افغانستان میں 2010ء میں ایک رنگا رنگ تقریب میں خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کی بنیاد رکھی گئی تھی تاہم رواں سال غیر محسوس طریقے سے اس ٹیم کو تحلیل کر دیا گیا۔ اس کی وجہ طالبان کی طرف سے دھمکیاں تو تھیں ہی لیکن قدامت پسندی اور سلامتی کی مخدوش صورتحال کو بھی خواتین کی کرکٹ ٹیم کے خاتمے کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔

افغانستان کرکٹ بورڈ کے نومنتخب چیئرمین نسیم اللہ دانش نے خبر رساں روئٹرز کو بتایا، ’’افغانستان میں خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم موجود نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’افغانستان میں صورتحال ایسی نہیں ہے کہ یہاں خواتین کی کرکٹ ٹیم بنائی جائے۔‘‘

Afghanistan Frauen Cricket
طالبان کے مطابق خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم نہ بنائی جائے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہےتصویر: DW/Hoshang Hashemi

ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کی کرکٹ ختم ہونے کی ایک وجہ بنیادی انفراسٹریکچر کی عدم موجودگی تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی اس قدامت پسند معاشرے میں مرد اس نظریے کے مخالف بھی ہیں کہ ان کی بہنیں یا بیٹیاں عوامی سطح پر کھیلوں کے کسی مقابلے میں حصہ لیں۔ اس قضیے سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں خواتین کی ترقی کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کیے جانے کے باوجود وہاں اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

افغانستان میں خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کی بانی ڈیانا بارکزئی نے اپریل میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ وہ کرکٹ بورڈ میں افغان خواتین کرکٹ کی نگران کے طور پر ذمے داریاں سر انجام دے رہی تھیں۔ بارکزئی کہتی ہیں کہ کرکٹ بورڈ سمجھتا ہے کہ خواتین کو گھروں سے اکیلے نکلنا یا کسی کھیل میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔

پاکستان میں بطور مہاجر پناہ گرین کرکٹ سیکھنے والی بارکزئی نے مزید کہا، ’’افغانستان کرکٹ بورڈ خواتین کی کرکٹ کی حمایت نہیں کرتا ہے، حتیٰ کہ میرے پاس ملک بھر کی 3700 ایسی لڑکیاں ہیں، جو کرکٹ کھیلتی ہیں۔ روئٹرز سے گفتگو میں البتہ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ کرکٹ بورڈ کا یہ رویہ تبدیل ہو جائے گا۔

دوسری طرف افغانستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین نسیم اللہ دانش کا کہنا ہے، ’’طالبان نے کہا ہے کہ خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم نہ بنائی جائے۔ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ افغانستان کا کلچر نہیں ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو وہ کھلاڑیوں کو پہنچنے والے کسی نقصان کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے انہیں یہ دھمکی ٹیلی فون کر کے دی۔

تاہم یہ امر اہم کے کہ انٹرنیشل کرکٹ کونسل (آئی سی سی ) کا مکمل رکن بننے کے لیے افغانستان کو 2025ء تک خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم تشکیل دینا ہو گی، کیونکہ آئی سی سی کا مکمل رکن بننے کے لیے یہ ایک اہم شرط ہے۔

نسیم اللہ دانش کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین کی کرکٹ ٹیم میں ایک رکاوٹ معاشرے کی قدامت پسندی بھی ہے کیونکہ بہت سے گھرانے یہ نہیں چاہتے کہ ان کی خواتین کھیلوں میں حصہ لیں۔ کابل کرکٹ اسٹیڈیم میں قائم اپنے دفتر میں روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بارکزئی پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ اقرباء پروری کی مرتکب ہوئی تھیں۔ تاہم ڈیانا بارکزئی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کرکٹ بورڈ امریکا سے ملنے والے فنڈز کا غلط استعمال کرتا ہے۔

Afghanistan Frauen Cricket
افغانستان میں 2010ء میں خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کی بنیاد رکھی گئی تھیتصویر: DW/Hoshang Hashemi

افغانستان کرکٹ بورڈ میں خواتین کی ڈپارٹمنٹ کی نئی سربراہ طوبیٰ سنگار کا کہنا ہے کہ سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے خواتین کی کرکٹ ٹیم کی تیاری میں مشکل درپیش ہے، ’’ہر روز، ہر ہفتہ بم دھماکے ہوتے ہیں۔ جب سلامتی کی یہ صورتحال ہے تو لوگ اپنی خواتین کو کھیلنے کی خاطر باہر کیسے بھیج سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بورڈ خواتین کرکٹ ٹیم کی حمایت کرتا ہے لیکن خواتین کھلاڑیوں اور کوچز کی کمی کے باعث صورتحال درست ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔

ادھر ہیومن رائٹس واچ ایشیا سے منسلک خواتین کے حقوق کی سرکردہ کارکن اور محقق ہیدر بار کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کی طرف سے خواتین کو کھیلوں کے میدان میں سرگرم کرنے کے سبھی عزم ’مصنوعی‘ ہیں اور یہ صرف غیر ملکی ڈونرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔