1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن ڈیل: توقعات اور خدشات

22 فروری 2020

اطلاعات ہیں کہ امریکا اور افغان طالبان متوقع طور پر انتیس فروری کو ایک حتمی امن سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔ اس ڈیل کے بعد کی صورت حال پر ابھی بھی دھند چھائی ہے کہ آیا حقیقی امن کا قیام ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/3YB69
Doha  Intra Afghan Dialogue Afghanistan Konferenz
تصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

امن ڈیل سے ایسی امیدوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ امریکا کی طویل ترین جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے۔ اب اس ڈیل پر دستخط کیے جانے سے قبل سات روزہ تشدد ختم کرنے کے عبوری معاہدے پر سب کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں کہ ان ایام میں جنگ بندی کا احترام ہی مستقبل کے امن معاہدے کا رخ متعین کرے گا۔

یہ بھی سوال گردش میں ہے کہ اگر کوئی عسکریت پسند بارودی جیکٹ کو دارالحکومت کابل میں پہنچ کر اڑا دے اور کئی انسانی جانیں اس کی لپیٹ میں آ جائیں تو امریکی رد عمل کیا ہو گا۔ اسی طرح اگر امریکی جنگی جہاز 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے ٹھکانوں پر بمباری کریں تو پھر طالبان کا جواب کیا ہو گا۔ اس سات روزہ عبوری ڈیل پر ہفتہ بائیس فروری سے عمل شروع ہو گیا ہے۔

قومی سلامتی کی افغان کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے بھی تصدیق کی ہے کہ ابتدائی طور پر یہ اتفاق رائے سات روز کے لیے ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب واشنگٹن اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کی تاریخ تک کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ امریکی حکام  اور طالبان کے مابین براہ راست بات چیت کا سلسلہ سن 2018 میں شروع ہوا تھا۔

Katar Friedensgespräche für Afghanistan
مریکی حکام  اور طالبان کے مابین براہ راست بات چیت کا سلسلہ سن 2018 میں شروع ہوا تھا۔​​​​​​تصویر: picture-alliance/AP/Qatar Ministry of Foreign Affairs

امریکی تھنک ٹینک سینٹر برائے اسٹریٹیجک اور انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینیئر مشیر سیٹ جونز کا کہنا ہے کہ مجموعی صورت حال فریقین کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ بعض عناصر ایسے ہیں جو اس جنگ بندی کے حامی نہیں ہیں۔ جوننز کے مطابق ایسے عناصر میں طالبان کے بعض اندرونی حلقے، حقانی نیٹ ورک اور مقامی ملیشیا کمانڈرز ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عبوری جنگ بندی کے دوران پرتشدد واقعات کو انفرادی سطح پر دیکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ جونز کے پرتشدد صورت حال پیدا ہونے پر امریکی فوج اور خفیہ اداروں کی معلومات پر کیے جانے والے بروقت فیصلے کلیدی حیثیت کے حامل ہوں گے۔

امریکی حکام نے بھی واضح کیا کہ ایسے عناصر موجود ہیں جو امن ڈیل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے حلقے افغان طالبان کی اپنی صفوں میں موجود ہیں۔ سات روزہ عبوری ڈیل اور پھر امن معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی فوجی حکام، افغان اہلکار اور طالبان ایک واسطے کے ذریعے سکیورٹی حالات پر مشترکہ طور پر نگاہ  رکھیں گے اور کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں وہ رابطےہ قائم کر کے بات چیت بھی کرسکیں گے۔

امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو اور طالبان کے ايک بيان ميں اس بات کی تصديق کی گئی ہے کہ فريقين ميں امن معاہدے پر دستخط کرنے کی تاریخ پر اتفاق ہو چکا ہے۔ امن معاہدے پر دستخط خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں انتيس فروری کو کيے جائيں گے۔ پومپيو نے کہا کہ معاہدے پر دستخط کے بعد معاملات آگے بڑھیں گے اور نتیجتاً افغان طالبان اور کابل حکومت کے درميان مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے۔

ع ح ⁄ ع ت (اے پی)

چالیس برس گزر گئے لیکن آج بھی مہاجر