1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدارتی انتخابات: عبداللہ عبداللہ کی برتری

افسر اعوان20 اپریل 2014

افغان الیکشن کمیشن کی طرف سے آج اتوار 20 اپریل کو جاری کیے جانے والے نتائج کے مطابق سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ صدراتی دوڑ میں اب تک سب سے آگے ہیں تاہم وہ ہنوز اکثریت حاصل نہیں کر پائے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BlQf
تصویر: picture alliance/landov

افغانستان میں پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے سرکاری نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ افغان الیکشن کمیشن کے مطابق 34 صوبوں میں ڈالے گئے ووٹوں کے قریب نصف کی گنتی مکمل ہو گئی ہے۔ عبداللہ عبداللہ کو اب تک 44.4 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے قریب ترین حریف اشرف غنی ہیں جنہیں 33.2 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اگر کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تو ملک میں انتخابات کا دوسرا دور منعقد ہو گا۔

ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والا امیدوار موجود ہ صدر حامد کرزئی کی جگہ لے گا
تصویر: AP

موجودہ افغان صدر حامد کرزئی کے دو بھائیوں کے حمایت یافتہ امیدوار زلمے رسول اب تک کے نتائج کے مطابق اس مقابلے میں کہیں پیچھے ہیں اور انہیں محض 10.4 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

افغانستان کے اتحادی ممالک کی طرف سے پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کو سراہتے ہوئے اسے ایک کامیابی قرار دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ توقعات سے کہیں زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ اور طالبان کی طرف سے ان انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی دھمکیوں کے باجود سکیورٹی فورسز کی طرف سے مجموعی طور پر پر امن ووٹنگ کے انعقاد کو یقینی بنانا تھا۔ تاہم ووٹنگ کے فوری بعد ہی انتخابی عمل میں بڑے پیمانے پر فراڈ کے الزامات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔

یاد رہے کہ افغان آئین کے مطابق اگر کسی بھی امیدوار کو ڈالے گئے درست ووٹوں کا 50 فیصد سے کم ملتا ہے تو ایسی صورت میں انتخابات کا دوسرا دور منعقد ہوتا ہے جس میں دو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار مد مقابل ہوتے ہیں۔ افغان صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج 14 مئی تک سامنے آنے ہیں۔ رن آف الیکشن کی صورت میں اس کا انعقاد مئی کے آخر میں ہو گا۔

ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والا امیدوار موجود ہ صدر حامد کرزئی کی جگہ لے گا جو افغانستان میں بین الاقوامی فوجی کارروائی کے آغاز سے ہی اس ملک کے صدر چلے آ رہے ہیں۔ اس وقت حامد کرزئی کے امریکا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں، جس کی وجہ ان کی طرف سے امریکا کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط سے انکار ہے جس کے تحت رواں برس کے اختتام تک افغانستان سے بین الاقوامی فوجوں کی واپسی کے بعد بھی تربیت اور امدادی کاموں کے لیے محدود تعداد میں امریکی فوج تعینات رہ سکتے ہیں۔