1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدارتی انتخابات اور اہم نکات

27 ستمبر 2019

افغانستان میں ہفتہ اٹھائیس ستمبر کو صدارتی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز ہی طالبان کی جانب سے عوام کو گھر پر رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، جس کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ان انتخابات کے اہم نکات کیا ہیں؟

https://p.dw.com/p/3QKXU
Afghanistan Wahlen l  Präsident Ashraf Ghani
تصویر: Getty Imaes/AFP/W. Kohsar

افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکیٹو عبد اللہ عبداللہ گزشتہ پانچ برسوں سے مل کر افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ انتخابات میں اتحادی حکومت کے یہ دونوں رہنما ہی اہم ترین صدارتی امیدوار بھی ہیں۔ سربراہ مملکت بننے کی دوڑ میں کل اٹھارہ  افراد میدان میں ہیں تاہم ان میں سے بہت کم نے ہی اپنی انتخابی مہم چلائی ہے۔ ان میں سے بہت کم ہی کو انتخابات کے منعقد ہونے کا یقین تھا۔ ان امیدواروں کی اس بے یقینی کی وجہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والے مذاکراتی عمل سے امریکی علیحدگی تھی۔ اسی طرح کئی امیدواروں نے صدر غنی کی حمایت میں انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ افغانستان میں سلامتی کے حالات مخدوش ہیں اور انتخابات کے موقع پر شدت پسند اس صورتحال کو آسانی سے اپنے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

Afghanistan Wahlen l Stimmabgabe
تصویر: picture alliance/AA/M. A. Firooz

انتخابی امیدوار

اشرف غنی کے جیتنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان کے سب سے بڑے حریف عبداللہ عبداللہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ انتہائی قدامت پسند جنگجو سردار گلبدین حکمت یار کا شمار بھی اہم امیدواروں میں ہوتا ہے۔ وہ بھی اشرف غنی کی طرح پشتون ہیں۔

انتخابی مہم

امریکا کی جانب سے سات ستمبر کو یعنی انتخابات سے تین ہفتے قبل اچانک طالبان کے ساتھ بات چیت روک دیے جانے کے بعد افغانستان میں ایک غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ اگر یہ امن معاہدہ ہو جاتا تو شاید فوری طور پر انتخابات کے بجائے ایک عبوری حکومت قائم کی جاتی۔ اسی وجہ سے بہت سے امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم ہی نہیں چلائی تھی۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے تاہم ملک کے مختلف علاقوں میں انتخابی ریلیاں اور جلسے کیے۔ انتخابی مہم بدھ تک جاری رہی تھی۔

Afghanistan Wahlen
تصویر: Getty Images/P. Bronstein

 اہل ووٹرز

افغانستان کے آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں اہل ووٹرز کی تعداد 9.6 ملین کے لگ بھگ ہے۔ تاہم یہ ابھی غیر واضح ہے کہ ہفتے کے روز ان میں کتنے شہری ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکلتے ہیں۔ طالبان کی دھمکی اور تاریخی طور پر افغان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے عوام میں انتخابات کے حوالے سے احساس کا فقدان پایا جاتا ہے۔

طریقہ کار

انتخابات جیتنے کے لیے کسی بھی امیداور کو 51 فیصد وٹ چاہیے ہوں گے۔ اگر کوئی امیدوار یہ مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کر پایا تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیداوروں کے مابین انتخابات کے دوسرا مرحلہ منعقد کیا جائے۔ رائے شماری صبح سات بجے شروع ہو کر بعد از دوپہر چار بجے تک جاری رہے گی۔ ابتدائی عبوری نتائج کا اعلان سترہ اکتوبر کو کیا جائے گا جبکہ حتمی نتائج ممکنہ طور پر سات نومبر کو سامنے آئیں گے۔ اگر انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ضرورت پڑی تو اس کی تاریخ کا اعلان سات نومبر کے بعد دو ہفتوں کے دوران کیا جائے گا۔

Kandahar Wahl in Afghanistan - Bürger wählen trotz Sicherheitsrisikos
تصویر: DW/I. Spesalai

 

پولنگ اسٹیشنز اور سلامتی

الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں پانچ ہزار تین سو کے لگ بھگ پولنگ اسٹیشنز کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کی درخواست کی ہے۔ تقریباً نو فیصد پولنگ اسٹیشنز حفاظتی انتظامات کے فقدان کی وجہ سے کھولے نہیں جائیں گے۔ سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے افغان دستوں کے تین لاکھ سے زائد اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں پولیس اور فوجی دونوں شامل ہیں۔ پولنگ اسٹیشنز کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگنے کا امکان ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے پارلمیانی انتخابات کے دوران کچھ علاقوں میں تو شہری چار سے پانچ گھنٹوں تک ووٹ ڈالنے کے انتظار میں کھڑے رہے تھے۔

طالبان کی دھمکی

افغانستان کے تقریباً نصف حصے پر طالبان قابض ہیں۔ صداراتی انتخابات سے تین روز قبل شدت پسند تحریک طالبان نے افغانستان میں پولنگ کے دن حملے کرنے کی دھمکی دی ہے۔ طالبان نے عوام سے انتخابات کے دن باہر نہ نکلنے کا کہا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ پولنگ اسٹیشنز پر تعینات پولیس اہلکاروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جائے گا۔ طالبان کی دھمکی کے بعد افغانستان میں انتخابات ملتوی کرنے کے حوالے سے مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ کئی سیاستدانوں کا موقف ہے کہ صورتحال اس قدر سنجیدہ اور نازک ہو چکی ہے کہ ان حالات میں رائے شماری کا منسوخ کیا جانا ہی بہتر ہے۔

Afghanistan Wahlen
تصویر: Getty Images/AFP/H. Hashimi

انتخابی مبصرین

انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے ایک لاکھ دس ہزار سے زائد مبصرین نے اندراج کرایا ہے۔ ان میں 115 ملکی اور غیر ملکی ادارے اور میڈیا سینٹرز  بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اٹھارہ میں سے نو امیدواروں نے بھی ووٹگ کی جانچ پڑتال کے لیے اپنے اپنے مبصرین کی رجسٹریشن کروائی ہے۔ صدر غنی کے اپنے مبصرین کی تعداد چھبیس ہزار سے زائد ہے اور عبداللہ عبداللہ کے مبصرین کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے۔