1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدارتی اليکشن ميں مبينہ دھاندلی، ملک گير احتجاج

عاصم سليم21 جون 2014

افغانستان کے دو صدارتی اميدواروں ميں سے ايک عبداللہ عبداللہ کے سينکڑوں حامی حاليہ اليکشن ميں مبينہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کے ليے آج ہفتہ اکيس جون کو دارالحکومت کابل سميت ملک کے کئی شہروں ميں مظاہرے کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1CNMv
تصویر: picture-alliance/dpa

افغانستان کے سابق وزير خارجہ اور صدارتی اميدوار عبداللہ عبداللہ نے اپنے سياسی حريف اشرف غنی، ملک کے موجودہ صدر حامد کرزئی اور اليکشن حکام پر الزام عائد کيا ہے کہ انہوں نے صدارتی اليکشن کے دوسرے مرحلے ميں دھاندلی کی ہے تاکہ عبداللہ عبداللہ کامياب نہ ہو سکيں۔ عبداللہ نے حال ہی میں يہ الزامات لگاتے ہوئے ووٹوں کی گنتی کا بائیکاٹ بھی کر دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے کی رائے دہی ميں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کافی بڑھا چڑھا کر پيش کيا گيا اور کئی صوبوں ميں تو اہل ووٹروں کی مجموعی تعداد سے بھی زيادہ ووٹ ڈالے گئے۔ افغان حکام کے مطابق دوسرے مرحلے کی ووٹنگ ميں سات ملين رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

عبداللہ عبداللہ کے حامی آج بروز ہفتہ کابل اور کئی ديگر شہروں ميں احتجاجی مظاہرے کر رہے ہيں۔ سابق وزير خارجہ نے اپنے حاميوں پر زور ديا ہے کہ وہ پر امن رہيں۔ تاحال يہ واضح نہيں کہ یہ احتجاج کتنے بڑے پيمانے پر کیا جائے گا يا اس ميں مجموعی طور پر تقریباﹰ کتنے شہریوں کی شرکت متوقع ہے۔

افغان صدر حامدر کرزئی
افغان صدر حامدر کرزئیتصویر: Reuters/Mohammad Ismail

دريں اثناء اقوام متحدہ نے متنبہ کيا ہے کہ اگر صدارتی انتخابی اميدواروں نے قانونی طريقہ کار اور فريم ورک ترک کر کے اپنے حاميوں سے احتجاج کی اپيل کی، تو اس کے نتيجے ميں پرتشدد واقعات رونما ہو سکتے ہيں۔ اقوام متحدہ کے مطابق چند عناصر پہلے ہی سول نافرمانی کا ذکر بھی کر چکے ہیں۔

ادھر افغان صدر حامدر کرزئی نے عبداللہ عبداللہ کے ان مطالبات کی حمايت کی ہے، جن ميں يہ کہا گيا تھا کہ سياسی بے يقينی کے خاتمے کے ليے اقوام متحدہ سے مدد لی جائے۔کرزئی نے مزيد کہا کہ انتخابی عمل کے دوران تنازعات اور شکوک و شبہات کا اٹھنا قدرتی بات ہے۔ کرزئی کے اس بيان کو اس طرح بھی ديکھا جا رہا ہے کہ اس سے مظاہروں سے قبل شايد کشيدگی ميں کچھ کمی آئے۔

يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں پانچ اپريل کو منعقدہ صدارتی اليکشن کے پہلے مرحلے ميں کوئی بھی اميدوار فيصلہ کن برتری حاصل نہیں کر سکا تھا۔ اليکشن ميں عبداللہ عبداللہ کو سب سے زيادہ 45 فيصد ووٹ ملے تھے جبکہ ان کے قريب ترين حريف اشرف غنی کے حق ميں 31.6 فيصد ووٹروں نے رائے دی تھی۔ بعد ازاں سب سے زيادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو اميدواروں میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لیے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ چودہ جون کو ہوئی تھی۔ ان دنوں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے اور ابتدائی رپورٹوں کے مطابق غير متوقع طور پر اشرف غنی کو عبداللہ عبداللہ پر کافی سبقت حاصل ہے۔

عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ افغانستان ميں 2009ء ميں منعقدہ گزشتہ صدارتی انتخابات ميں بھی بڑے پيمانے پر دھاندلی ہوئی تھی اور اسی سبب وہ پچھلی بار بھی اليکشن ہار گئے تھے۔