1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صحافی: ہر طرف سے دباؤ اور خطرہ

وصلت حسرت نظيمی / آئی اے8 اگست 2014

افغانستان میں صحافیوں کو مسلسل خطرات کے سائے میں رہنا پڑتا ہے۔ انہیں نہ صرف طالبان بلکہ حکومت، خفیہ ایجنسیوں،نیٹو فوجیوں، مافیا اور مقامی سرداروں کے دباؤ کا بھی سامنا رہتا ہے اور ہر کوئی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CrJb
تصویر: DW

اپریل کے آغاز میں مشرقی افغانستان میں ایک جرمن خاتون صحافی آنیا نیدرنگ ہاؤس کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اب ڈی ڈبلیو کے ایک نمائندے زیرک ذہین کو بھی کئی اطراف سے مشکلات کا سامنا ہے۔

مشرقی افغانستان کے صوبے کُنڑ کا رہائشی ذہین اپنے علاقے کے چپّے چپّے سے واقف ہے۔ اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وہ جب بھی اپنے گھر سے نکلتا ہے، تو حقیقت میں وہ خود کو خطرے میں ڈال رہا ہوتا ہے۔ کُنڑ صوبے میں طالبان کی کارروائیاں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

اگست کے آغاز میں اسی صوبے میں 23 سالہ زیرک ذہین ایک نئی سڑک کی تعمیر کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے سفر کر رہا تھا۔ تصویریں اتارنے اور انٹرویوز لینے کے بعد وہ ایک مفصّل رپورٹ تیار کرنے کے لیے اپنے گھر جا رہا تھا تاہم اُس شام جلدی گھر پہنچنا اس کی قسمت میں نہیں تھا۔

Zerak Zaheen, DW-Korrespondent in Afghanistan
ذہین کو تحویل میں لینے والے جنگجوؤں کی زبان کا لب و لہجہ کچھ اجنبی سا تھا۔ جو کچھ ذہین کو سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ وہ بیزاری کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اسے ہلاک کرنے کا کہہ رہے تھے۔تصویر: privat

طالبان کی ناکہ بندی

واپسی پر ایک قدرے سنسنان علاقے میں تقریباﹰ دس افراد کی طرف سے اس کی سفید ٹیوٹا کرولا کو روک لیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے ذہین اور اس کے ڈرائیور سے کاغذات طلب کیے۔ ذہین کے پاس اس وقت صرف صحافتی شناختی کارڈ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے فوری طور پر اسے گاڑی سے اترنے کے لیے کہا اور اُس کی صحافتی رپورٹوں سے متعلق مواد مانگا۔ پھر انہوں نے گاڑی کے ڈرائیور کو تو جانے دیا لیکن ذہین کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ ذہین کہتے ہیں، ’’انہوں نے مجھے ڈرایا دھمکایا اور مسلسل کہتے رہے کہ میں ایک جاسوس ہوں۔‘‘

ذہین کو تحویل میں لینے والے جنگجوؤں کی زبان کا لب و لہجہ کچھ اجنبی سا تھا۔ جو کچھ ذہین کو سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ وہ بیزاری کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اسے ہلاک کرنے کا کہہ رہے تھے۔ لیکن اس گروپ کا امیر پہلے ذہین سے معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ذہین کے لیپ ٹاپ پر کچھ فائلز نہ کھل پائیں تو طالبان کو مزید شک ہوا اور اسے مارا پیٹا بھی گیا۔

ذہین کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اس دن طالبان کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہا کہ وہ امریکا کے لیے جاسوسی نہیں کرتا اور حقیقی معنوں میں ایک صحافی ہے۔ اس کے بعد ذہین کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن اس کے تمام آلات طالبان نے اپنے پاس رکھ لیے۔ اس کے بعد ذہین قریبی پولیس چیک پوائنٹ تک پہنچا اور پولیس نے اسے گھر تک پہنچا دیا۔

تمام اطراف سے دباؤ

اس کے اگلے ہی دن افغان خفیہ ایجنسی کے اہلکار ذہین کے گھر پر آن دھمکے۔ اب وہ اُس سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ طالبان نے اسے آزاد کیوں کیا ؟ ان کا کہنا تھا کہ ذہین کے طالبان کے ساتھ روابط ہو سکتے ہیں ورنہ وہ اسے آزاد نہ کرتے۔ کئی گھنٹوں تک ذہین سے تفتیش کی جاتی رہی۔ ذہین کا افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہاں اگر کوئی صحافی ہے تو ہر طرف سے اس پر شک کیا جاتا ہے، اسے جاسوس اور جھوٹا تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

افغانستان میں ڈی ڈبلیو کے لیے کام کرنے والے ایک اور صحافی عبداللہ نظامی کا کہنا ہے، ’’صرف طالبان ہی آپ کو خوفزدہ نہیں کرتے بلکہ حکومت کی طرف سے بھی صحافیوں پر شدید دباؤ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مافیا کے ارکان اور مقامی سردار بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔‘‘ نظامی کے مطابق نیٹو کے فوجیوں کی طرف سے بھی صحافیوں کو دھمکایا جاتا ہے۔

صحافیوں کے خلاف تشدد

عبداللہ نظامی بی بی سی اور الجزیرہ کے لیے بھی کام کرتے ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے صحافت سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کی گرفتاریاں اور اُن سے اس طرح کی تفتیش ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ افغانستان میں صحافیوں کے خلاف پُرتشدد حملوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

میڈیا تنظیم نئی میڈیا واچ کے چیئرمین صدیق اللہ توحیدی کا کہنا ہے، ’’رواں برس صحافیوں کے خلاف 60 حملے کیے گئے جبکہ اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ابھی تک افغانستان میں سالانہ تین صحافی ہلاک ہوتے تھے لیکن رواں برس اب تک چھ صحافی مارے جا چکے ہیں۔‘‘

توحیدی کا تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آزادی صحافت کے سلسلے میں کرزئی حکومت کو بہت کم کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔