1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خواتین اور لڑکیوں کی حالات زار، کابل حکومت پر کڑی تنقید

22 اکتوبر 2012

پاکستانی طالبان کی ناقد سوات کی چودہ سالہ ملالہ یوسف زئی پر عسکریت پسندوں کے حالیہ حملے پر جو بین الاقوامی، خاص کر افغانستان میں جو تنقید کی گئی، اس پر خواتین کے حقوق کے لیے کوشاں کئی سرکردہ افغان شخصیات ناراض ہیں۔

https://p.dw.com/p/16UfC

ان افغان حلقوں نے اس حوالے سے شکایت کی ہے کہ کابل حکومت کو پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کی تو بہت فکر ہے لیکن خود افغان خواتین کی حالت زار پر اسے کوئی تشویش نہیں ہے۔

پاکستانی طالبان کے ملالہ یوسف زئی پر حالیہ حملے کی افغانستان میں کی جانے والی سرکاری مذمت کے سلسلے میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی افغان کارکنوں کو شکایت ہے کہ کابل میں صدر کرزئی کی حکومت ملکی خواتین اور بچیوں کو درپیش تکلیف دہ حالات پرکوئی زیادہ توجہ نہیں دے رہی۔

Malala Yousafzai
ملالہ اس وقت برطانیہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اس بارے میں افغان پارلیمان کی رکن ایلا ارشاد نے کابل میں پارلیمان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کابل حکومت چودہ سالہ ملالہ یوسف زئی کے بارے میں جن ہمدردیوں کا اظہار کر رہی ہے، ان کا مقصد محض میڈیا کی توجہ حاصل کرنا ہے۔

افغان پارلیمان میں کُوچی خانہ بدوشوں کی نمائندگی کرنے والی رکن ایلا ارشاد کے بقول صدر حامد کرزئی کو چاہیے کہ وہ افغانستان کی خواتین کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولتوں اور سلامتی کے انتظامات کو ممکن بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

ایلا ارشاد نے کہا کہ کابل حکومت افغانستان میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے خود مختار کمیشن کی ان شکایات پر کوئی توجہ نہیں دے رہی کہ ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

ایلا ارشاد کا کہنا تھا، ’افغانستان میں ہر روز کسی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے، اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے یا پھر اس کے جسم کے مسخ کر دیا جاتا ہے، لیکن ان افغان لڑکیوں کی تکالیف کا نہ تو کسی کو احساس ہے اور نہ ہی انہیں کوئی یاد رکھتا ہے‘۔

Afghanistan Nomaden
افغانستان میں کُوچی خانہ بدوشوں کا ایک رہائشی خیمہتصویر: picture-alliance/dpa

ایلا ارشاد نے ارکان پارلیمان سے اپنے خطاب میں ملکی سیاستدانوں کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں کسی بھی جگہ پر یا کسی بھی تقریب میں جیسے ہی ٹیلی وژن کمیرے بند ہو جاتے ہیں، تو کسی کو اس بات میں دلچسپی نہیں رہتی کہ افغان عوام، خاص طور پر خواتین اور بچیوں کو بھی انصاف مہیا کیا جانا چاہیے۔

خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغانستان میں صدر کرزئی کی طرف سے ملکی خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی جو بھرپور مذمت آخری مرتبہ کی گئی تھی، وہ اُس واقعے کے حوالے سے تھی جس میں اسی سال جولائی میں مسلح افراد نے ایک بائیس سالہ افغان خاتون نجیبہ کو مبینہ طور پر غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے الزامات میں سرعام موت کی سزا دی تھی۔

تب بین الاقوامی سطح پر یہ واقعہ اس لیے میڈیا کی سرخیوں کا موضوع بنا تھا کہ اس کا علم ہوتے ہی انٹر نیشنل سطح پر اس کی مذمت کی گئی تھی۔ انسانی حقوق کے افغان کمیشن کے مطابق اس وقت لگتا یہ ہے کہ حامد کرزئی کی حکومت ملک میں حقوق نسواں کے سلسلے میں بظاہر پیچھے ہٹتی جارہی ہے۔

(mm / ij (reuters