1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان بچوں کی وائرل تصویر، سندھ حکومت پر رہائی کے لیے دباؤ

30 دسمبر 2022

سوشل میڈیا پر کراچی کی جیل میں قید افغان بچوں کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد ان کی رہائی کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ اس دوران گرفتار شدگان کے ساتھ جیل میں روا رکھے جانے والے سلوک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4La3i
Afghanistan Erdbeben Gayan
تصویر: Ali Khara/REUTERS

کراچی میں افغان شہریوں کی گرفتاریوں کو پڑوسی ممالک کے کشیدہ تعلقات کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ صوبہ سندھ کی پولیس نے بتایا ہے کہ مارے جانے والے متعدد چھاپوں میں کم از کم بارہ سو افغان شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ حکام کے مطابق یہ افراد بغیر کسی سفری دستاویز کے بغیر کراچی میں داخل ہوئے تھے۔ 

سندھ حکومت کا موقف 

حکومت سندھ کے ترجمان مرتضی وہاب نے بتایا کہ انہی افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جو غیر قانونی طور پر اس صوبے میں رہ رہے تھے۔ ان کے بقول ایسے افراد کو جلد از جلد ملک بدر کر دیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس سال کے دوران سندھ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کی وجہ سے حراست میں لیے جانے والے اور ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں کی تعداد کتنی تھی۔ 

کراچی کی مقامی انتظامیہ اور پولیس نے مزید بتایا کہ زیر حراست افراد کو سزا مکمل ہونے یا پھر ان کے وکیل کی جانب سے کاغذی کارروائی مکمل کر لینے کے بعد ہی افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر گرفتارشدگان واپس اپنے ملک جانا چاہتے ہیں۔

پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن نے اس ماہ جو اعداد وشمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق کراچی کی سخت نگرانی والی جیل میں قید افغان شہریوں میں کم از کم 139 خواتین اور 165 بچے شامل ہیں۔ 

بھوک کے خلاف جنگ کرتے افغان بچے

پاکستان نے وعدوں کا پاس نہیں رکھا، بلخی 

کابل میں طالبان کے زیرانتظام وزارت خارجہ کے ایک ترجمان عبدالقادر بلخی نے بتایا کہ سفارت خانے کے اہلکاروں نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات میں اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان کے مطابق، ''پاکستانی حکام نے بارہا ایسے گرفتار شدگان کی فوری رہائی کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن انہوں نے اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھا۔ ہمارے خیال میں پاکستان میں افغان شہریوں کے ساتھ یہ ذلت آمیز رویہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔‘‘ 

بلخی نے مزید بتایا کہ افغان شہریوں کو پاکستان نہ جانے کی ہدایات دی گئی ہیں، ''ہم نے انہیں کہا ہے کہ انتہائی مجبوری میں ہی پاکستان کا سفر کریں اور بغیر مناسب دستاویز کے پاکستان بالکل بھی نہ جائیں‘‘۔

علامتی سزائیں دی جانی چاہیں

غیر قانونی طور پر زیر حراست افغان شہریوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والی ایک وکیل منیزہ کاکڑ نے بتایا کہ کراچی کی جیلوں میں کم از کم چودہ سو افغان شہری قید ہیں، ''ہمیں پاکستان بھر کی جیلوں میں رکھے جانے والے افغانوں کی اصل تعداد کے بارے میں تو نہیں پتا۔ مگر اس دوران ہم کئی سو افغان شہریوں کو رہا کروا کر ان کے ملک واپس بھجوا چکے ہیں‘‘۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ بیمار اور حاملہ افغان خواتین علاج معالجے کے لیے افغانستان سے فرار ہو کر کراچی پہنچی تھیں اور بھی گرفتار شدگان میں شامل ہیں۔ منیزہ کاکڑ کے بقول گزشتہ مہینے درجنوں افغان شہریوں کو ان کی سزا مکمل کرنے کے بعد ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایسی سزائیں زبانی اور علامتی طور پر ہونی چاہییں تاکہ گرفتار کیے جانے والوں کی واپسی کا عمل فوری مکمل کر لیا جائے۔ 

جنگ سے متاثرہ افغان بچے

معمول کی کارروائی 

پاکستان میں ایسی گرفتاریاں معمول کی بات ہیں۔ اکتوبر کے اوائل میں کراچی اور دیگر علاقوں میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی گرفتاری کے لیے اس طرح کے چھاپے مارے جا چکے ہیں۔ کراچی میں افغان قونصل خانے کے ایک اہلکار گل دین کے مطابق وہ گرفتارشدگان کی فوری اور باوقار انداز میں واپسی کے معاملے پر پاکستان حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ 

 

افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان آنے والے افغان شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر معاشی حالات کی تنگی، طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور ظلم و جبر سے بچنے کے لیے پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں اندراج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد تیرہ لاکھ بنتی ہے۔

رب/ ع ت (اے پی)