افریقہ میں فضائی سفر: ایک ڈراؤنا خواب
26 اگست 2010اگر آپ بذریعہ ہوائی جہاز افریقہ جا رہے ہیں تو اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے اور دعا کیجئے کہ آپ خیریت سے اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ یہ وہ مشورہ ہے جو ایسے فضائی مسافر آپ کو دے سکتے ہیں، جو تسلسل سے افریقی ملکوں کا سفر کرتے ہیں۔
اس کی وجہ فلائٹ بدلنے اور کسی طیارے کا اچانک کسی شہر میں رک جانے سے متعلق وہ تجربہ ہے جو اس براعظم میں تجارت اور سیاحت کے لیے انتہائی تقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ گلینا گورڈن ایک ایسی فری لانس فوٹو گرافر ہیں جو لائبریا میں رہتی ہیں اور انہیں اس بات کا خاصا تجربہ ہے کہ افریقی ملکوں میں فضائی سفر کے دوران کس کس طرح کے منفی تجربات پیش آ سکتے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ مونرویا سے کیمرون جا رہی تھیں کہ انھیں اچانکLibervilleمیں رکنا پڑ گیا اور پھر مشرقی افریقہ میں کینیا کے شہر ممباسا میں بھی۔
ایسا کرتے کرتے وہ افریقہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ گئیں اور اپنی منزل تک پہنچنے میں انھیں قریب تیس گھنٹے لگے۔ گورڈن کہتی ہیں کہ فضائی سفر کی بجائے اگر وہ مونرویا سےکیمرون جانے کے لیے خلیج گنی کے راستے کشتی کے ذریعے سفر کرتیں تو بہت جلد اپنی منزل تک پہنچ سکتی تھیں۔
ان دنوں کئی بین الااقوامی ایئر لائنز زیادہ سے زیادہ تعداد میں افریقی شہروں کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کر رہی ہیں تاکہ اس براعظم میں فضائی سفر کی تیزی سے پھیلتی ہوئی مارکیٹ میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ جگہ بنا سکیں۔ لیکن بہت سی مقامی فضائی کمپینوں کو آج بھی کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے ۔ جن کی ایک بڑی وجہ مختلف ریاستوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات بھی ہیں۔
فضائی سفر کی بین الاقوامی تنظیم IATAکے ڈائریکٹر کمیونیکیشن اینتھونی کونسل کہتے ہیں کہ افریقی حدود میں ایئر سروس کو جدید ترین خطوط پر استوار کرنے سے متعلق معاہدہ اس براعظم میں مربوط اور تیزرفتار فضائی سفر کے لیے کی جانے والی ایک قابل تعریف کوشش تھی مگر اس پر آج تک بہت ہی کم عملدرآمد ہو سکا ہے۔
ان کے مطابق افریقہ میں فضائی سفر کی صنعت میں ترقی کے لیے درکار سیاسی عزم کی کمی ہے اور فیصلہ ساز شخصیات اور ادارے عملی طور پر اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ اس شعبے میں پیش رفت کتنی مثبت ہو سکتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مختلف افریقی ریاستوں کے بڑے شہروں کو فضائی سفر کے راستے ایک دوسرے سے جوڑنے کے جملہ امکانات پر اب تک کیا جانے والا عمل درآمد بالکل تسلی بخش نہیں ہے۔
دبئی کی فضائی کمپنی ’عمارات ‘ ایک ایسی ائرلائن ہے، جو افریقہ میں تیزی سے اپنے کاروبار کو وسعت دے رہی ہے اور یہ ستمبر میں مغربی افریقہ سے ایشیا کے لیے پہلی براہ راست پرواز بھی شروع کر رہی ہے ۔ عمارات ائرلائن کے صدر ٹم کلارک کہتے ہیں کہ یہ بات یقینی ہے کہ افریقہ میں فضائی سفر آسان نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آج بھی اگر کوئی مسافر گھانا سے کیمرون جانا چاہے تو اسے محض چھ سو ساٹھ کلو میٹر کا یہ فاصلہ پیرس کے راستے طے کرنا پڑتا ہے،جس کی وجہ سے یہ سفر اپنے فاصلے اور دورانیہ میں مزید طویل ہو جاتا ہے۔
افریقہ میں اکثر فضائی کمپنیاں آج بھی کلی طور پر یا اکثریتی طور پر ریاستی ملکیت میں ہیں۔IATAکے مطابق گزشتہ برس افریقی ائرلائن انڈسٹری کو دو ہزار آٹھ کی طرح دو ہزار نو میں بھی قریب سو ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ لیکن اس سال امید ہے کہ اس صنعت کو قریب سو ملین ڈالر کا منافع ہو گا۔ ماہرین کو امید ہے کہ سال رواں کے دوران افریقہ میں فضائی سفر کی صنعت میں گزشتہ برسوں کے دوران تنزلی کے رجحان کے برعکس قریب 13.5 فیصد ترقی دیکھنے میں آئے گی۔ افریقہ میں فضائی سفر کے لیے سب سے نقصان دہ بات وہاں حادثات کی وہ بہت زیادہ شرح ہے جو اس خطے کو دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ بنادیتی ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: عاطف بلوچ