اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ: پی ٹی آئی کو فائدہ ہوگا؟
15 جنوری 2023اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے فیصلے نے ملک میں ایک بار پھر سیاسی بے یقینی کو بڑھا دیا ہے اور ملک کے ایک بڑے بینک کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر تمام اسٹیک ہولڈرز ایک جگہ نہیں بیٹھے تو بینکنگ سیکٹر کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ملک کی اسٹاک ایکسچینجیز میں بھی صورتحال کوئی بہت زیادہ خوشگوار نہیں ہے جبکہ کاروباری حلقے بھی موجودہ سیاسی صورتحال سے پریشان نظر آتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کے چلتے عام آدمی کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس حکومت نے آتے ہی کمر توڑ مہنگائی کو فروغ دیا ہے جس سے نہ صرف غریب آدمی کا جینا مشکل ہو گیا ہے بلکہ متوسط طبقے کو بھی بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔
معاشی مشکلات اور پی ٹی آئی کا فائدہ
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر کئی حلقے یہ پیشنگوئی کر رہے ہیں کہ آنے والے مہینے معاشی اعتبار سے ایک عام آدمی کے لیے مزید مشکلات کا سیلاب لے کر آئیں گے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ عمران خان انہی معاشی مشکلات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور عام آدمی کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر عمران خان کو معلوم ہے کہ حکومت کو مزید سخت معاشی اقدامات کرنے پڑیں گے جس سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کرے گی۔ ایسے میں پی ڈی ایم کی حکومت انتہائی غیر مقبول ہو جائے گی جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔‘‘
ن لیگ اورپی پی پی کا نقصان
توصیف احمد خان کے مطابق قانونی طور پر الیکشن کمیشن پابند ہے کہ نوے دن میں ان اسمبلیوں کے انتخابات کرائے اور اگر یہ انتخابات ہوتے ہیں تو اس سے نہ صرف نون لیگ بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ''عمران خان کو یقین ہے کہ ان کا سیاسی گراف بہت اونچا ہے۔ وہ اس مقبولیت کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور ممکنہ طور پر وہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کو بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں جب کہ سندھ کے شہری علاقوں میں بھی پی ٹی آئی ووٹ لے سکتی ہے۔‘‘
عام انتخابات پر ممکنہ اثرات
توصیف احمد خان کا دعوی ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے بھاری اکثریت حاصل کرلی تو اس کا بہت گہرا اثر عام انتخابات پر ہوگا۔ ''سیاسی طور پر طاقتور شخصیات سوچیں گے کیونکہ عمران خان مقبول ہے اس لیے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا جائے۔ قومی اسمبلی کے بہت سارے امیدوار یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کیونکہ عمران خان نے دو اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کر لی ہے اس لیے اس کا ساتھ دیا جائے‘‘۔
انتظامی فوائد
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ اگر دو صوبوں میں پی ٹی آئی الیکشن جیت جاتی ہے تو اگلے انتخابات کے وقت ان دونوں صوبوں کی انتظامیہ پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہو گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اور اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں بھی ہوگا۔ سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور آزاد امیدوار، بلوچستان میں الیکٹیبلز اورسابق فاٹا کی با اثر سیاسی شخصیات بھی عمران خان کی طرف دیکھیں گے۔ اس سے پی ٹی آئی کی عام انتخابات میں پوزیشن بہت مضبوط ہو جائے گی اور وہ ممکنہ طور پر بھاری اکثریت حاصل کر سکتی ہے‘‘۔
ممکن ہے، آسان نہیں
تاہم کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ سیاسی مقبولیت اور ووٹ حاصل کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اسحاق خان خاکوانی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پی ٹی آئی انتخابات جیتنا آسان سمجھ رہی ہے تاہم یہ آسان ہو گا نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بھٹو کے 1970 کے انتخابات والا معاملہ نہیں ہے کہ جس پر وہ ہاتھ رکھ دے اسے ووٹ مل جائے یا یہ کراچی میں الطاف حسین والا معاملہ نہیں ہے کہ جس پر وہ ہاتھ رکھ دے وہ ووٹ لے لے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کہیں کہ یہ میرا سرونٹ ہے اور اس کو ووٹ دو‘‘۔
اسحاق خاکوانی کے مطابق انتخابی ریس میں بہت سارے عوامل دیکھے جاتے ہیں۔ '' یہ دیکھنا پڑے گا کہ پی ٹی آئی جن امیدواروں کو ٹکٹ دے رہی ہے ان امیدواروں کا پس منظر کیا ہے۔ امیدواروں کی اچھی شہرت، مالی وسائل، انتخابی مہم چلانے کی اہلیت، ووٹرز سے تعلق اور علاقی سیاست کی سوجھ بوجھ یہ وہ سارے عوامل ہیں جو انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ صرف عمران خان کی مقبولیت سے ہی ووٹ نہیں پڑے گے بلکہ ان عوامل کو بھی پیش نظر رکھنا پڑے گا۔‘‘
خوش فہم پی ٹی آئی
نون لیگ کا دعوی ہے کہ یہ پی ٹی آئی کی خوش فہمی ہے کہ وہ پنجاب سے کلین سویپ کر جائے گی۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق گورنر خیبرپختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ نون لیگ اپنی پوری طاقت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے گی اور انہیں بھر پور انداز میں جیت کر بھی دکھائی گئی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ حکومت نے بہت سارے سخت معاشی اقدامات کیے ہیں لیکن عوام با شعور ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف ہے جس نے انتہائی نااہلی کا مظاہرہ کیا اور ملکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیلا‘‘۔
اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق کچھ وقت کے بعد معیشت میں استحکام آئے گا جس سے نون لیگ کی شہرت میں بھی اضافہ ہو گا۔ ''اس کے علاوہ نون لیگ عوامی ریلیف پیکیجز پر پہلے ہی کام کر رہی ہے۔ مزید براں مریم نواز شریف اور میاں نوازشریف کچھ ہی عرصے بعد پاکستان میں ہوں گے اور پھر عمران خان کی مقبولیت کا سارا پول کھل جائے گا اور لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کتنے مقبول ہیں۔ جب دونوں انتخابی مہم میں حصہ لیں گے تو اس سے اگلے عام انتخابات پر بہت اثر پڑے گا اور پی ٹی آئی کی ساری خوش فہمی ختم ہو جائے گی۔‘‘