1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلحے کے لیے کرزئی کی درخواست، بھارت مخمصے میں

24 مئی 2013

رواں ہفتے افغان صدر حامد کرزئی نے بھارت کا دورہ کیا۔ نئی دہلی میں سیاسی قیات کے ساتھ اپنے مذاکرات میں کرزئی نے کھلم کھلا درخواست کی کہ بھارت افغانستان کو ہتھیار فراہم کرے۔ اس درخواست کے بعد بھارت مخمصے میں پڑ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/18dXB
تصویر: Reuters

افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے دورِ صدارت میں بھارت کے تقریباً کوئی ایک درجن دورے کیے ہیں۔ چونکہ وہ اپنی طالبعلمی کا زمانہ شملہ میں گزار چکے ہیں، اس لیے روانی سے ہندی بھی بول لیتے ہیں۔ بھارت خطّے میں افغانستان کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اب تک اقتصادی ڈھانچے اور تعمیر نو کے منصوبوں میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ 2011ء میں بھارت اور افغانستان کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنرشپ شروع ہو گئی۔ دریں اثناء بھارت افغان فوج اور پولیس کے ارکان کو تربیت فراہم کر رہا ہے۔ رواں ہفتے کرزئی کے ساتھ ملاقات کے موقع پر بھارتی صدر پرنب مکھر جی نے زور دے کہا:’’بھارت کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکا، وہ سکیورٹی فورسز کی تربیت، اُنہیں ساز و سامان کی فراہمی اور اداروں کی تعمیر کے سلسلے میں افغانستان کی امداد میں اضافہ کرے گا۔‘‘

تاہم کرزئی نے کھلم کھلا بھارتی حکومت سے فوجی امداد مانگ لی تاکہ وہ سن 2014ء میں غیر ملکی دستوں کے بڑی حد تک انخلاء کے بعد طالبان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھ سکیں۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کرزئی نے کہا کہ ’آیا ایسا ممکن ہے، یہ فیصلہ کرنا اب بھارت کا کام ہے‘۔ ایسی کوئی مصدقہ معلومات نہیں ہیں کہ کرزئی نے کس قسم کی مدد مانگی ہے۔ بھارتی وَیب سائٹ firstpost.com نے البتہ لکھا ہے کہ کرزئی نے گرینیڈز، ٹرانسپورٹ طیارے، ٹرک اور پُل تعمیر کرنے کا ساز و سامان مانگا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت خود اپنی ضرورت کے ہتھیار دوسرے ممالک بالخصوص روس سے خریدتا ہے۔

بھارت کی مشکل

سابق بھارتی جنرل اور ممتاز دفاعی تجزیہ کار افسر کریم کے مطابق افغانستان کو اسلحے کے نظاموں کی ضرورت ہے اور کوئی بھی افغانستان کو ان نظاموں سے لیس کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تاہم اگر بھارت ایسا کرتا ہے تو اُسے خطّے میں اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ہاں پیدا ہونے والے رد عمل کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آیا افغانستان کے ساتھ گہری دوستی ایسے کسی بھارتی اقدام کا جواز بنتی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور افغان صدر حامد کرزئی تبادلہء خیال کرتے ہوئے
بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور افغان صدر حامد کرزئی تبادلہء خیال کرتے ہوئےتصویر: ap

خاص طور پر پاکستان میں افعانستان کے حوالے سے بھارت کے طرزِ عمل پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ افغانستان کے قریبی تعلقات کو تشویش سے دیکھ رہا ہے اور خود کو دو حلیف ملکوں کے درمیان گھرا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے اپنے مخصوص مفادات ہیں، یہ اور بات ہے کہ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب چلے آ رہے ہیں۔ افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ دو ہفتے قبل پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور نئے ممکنہ وزیر اعظم نواز شریف نے زور دے کر کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں افغان امور کے ماہر قمر آغا کے خیال میں بھارت کو ایک مشکل فیصلے کا سامنا ہے:’’بھارت کو اندازہ ہے کہ پورے خطّے میں افغانستان کا موضوع کتنا حساس ہے، اسی لیے وہ کبھی بھی فوجی اعتبار سے وہاں سرگرم نہیں ہوا اور اُس نے اپنی کوششوں کو سکیورٹی فورسز کی تربیت اور تعمیر نو کے منصوبوں تک ہی محدود رکھا ہے۔‘‘

چین کا رد عمل کیا ہو گا؟

ریٹائرڈ بھارتی جنرل افسر کریم کے مطابق افغانستان میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ چین کے بھی مفادات ہیں۔ ایسے میں ’بھارت کو خوب سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہو گا۔ اب تک تو چینیوں کو افغانستان میں بھارتی سرگرمیوں سے کوئی مسائل نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ آیا بھارتی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہونے کے بعد بھی ایسا ہی رہے گا؟‘

ان حالات میں بھارت نے افغانستان کی درخواست پر کوئی فیصلہ کرنے کے سلسلے میں سوچنے کے لیے مہلت مانگ لی ہے کیونکہ اس سے بری بات کوئی نہیں ہو سکتی کہ آپ کوئی ایسا غلط فیصلہ کر لیں کہ جس سے پورے خطے کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے۔

P.Esselborn/aa/ia