1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹيٹ کی رکنيت پر پہلی مرتبہ کسی جرمن شہری کو سزا

عاصم سليم5 دسمبر 2014

عراق اور شام ميں سرگرم شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ کی رکنيت حاصل کرنے پر آج بروز جمعہ ايک جرمن شہری کو تين سال نو ماہ قيد کی سزا سنا دی گئی۔ جرمنی ميں يہ اپنی نوعيت کا پہلا مقدمہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dzoc
تصویر: Reuters/Ralph Orlowski

بيس سالہ جرمن شہری کريشنک بی کے والدين کوسوو سے ہيں۔ اسے جمعہ پانچ دسمبر 2014ء کو جرمن شہر فرينکفرٹ ميں يہ سزا سنائی گئی۔ کريشنک بی اسلامک اسٹيٹ کی رکنيت حاصل کرنے اور شام ميں چھ ماہ گزارنے کا اعتراف کر چکا ہے جہاں اسے اسلحہ استعمال کرنے کی تربيت بھی فراہم کی گئی تھی۔

آج ہونے والی مقدمے کی سماعت زيادہ طويل نہ تھی۔ اس دوران کورٹ ميں موجود افراد کو چند ايسی ريکارڈنگز سنوائی گئيں، جن ميں کريشنک بی اپنی ہمشيرہ سے ٹيلی فون پر بات کرتے ہوئے ’شہيد‘ ہونے کی خواہش کا اظہار کر رہا تھا۔ پھر جب وہ لاپتہ ہوا، تو اس کے اہل خانہ نے حکام کو مطلع کر ديا۔

کريشنک بی نے چھ ماہ شام ميں گزارے
کريشنک بی نے چھ ماہ شام ميں گزارےتصویر: picture-alliance/dpa/Boris Roessler

عدالت کے بقول مجرم کو شام جا کر يہ احساس ہوا کہ اسلامک اسٹيٹ اور ديگر گروہوں کے مابين کشيدگی پائی جاتی ہے اور کئی گروہ ایک دوسرے کے خلاف ہی برسرپيکار ہيں۔ اس احساس اور اپنے اہل خانہ کے مسلسل مطالبوں کے نتيجے ميں کريشنک بی نے واپس آنے کا فيصلہ کيا۔

ججوں کے فيصلے کے تحت کريشنک بی کے خلاف کارروائی نابالغوں کے قوانين کے مطابق کی گئی اور يہی وجہ ہے کہ اسے دی گئی سزا کا دورانيہ کم ہے۔ جرمن قوانين کے مطابق اٹھارہ تا اکيس برس کے نوجوانوں کے خلاف عدالتی کارروائی نابالغوں کے قوانين کے تحت کی جا سکتی ہے۔ جج تھوماس زاگيبينل نے بتايا کہ کريشنک بی کو ان قوانين کے تحت سزا دی گئی ہے اور وہ اميد کرتے ہيں کہ مجرم جہادی اور انتہا پسند سوچ سے چھٹکارہ حاصل کر سکے گا۔

يہ امر اہم ہے کہ سنی شدت پسندوں کی تنظيم اسلامک اسٹيٹ، جسے داعش يا دولت اسلاميہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، شام اور عراق کے کئی حصوں پر قابض ہے۔ يہ تنظيم ہزاروں ايسے مسلمانوں کو قتل کر چکی ہے جو ان کے مسلک سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔ اس کے علاوہ مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والوں کے گلے کاٹے جا چکے ہيں اور غير مسلموں کو بھی قتل کيا گيا ہے۔ اسلامک اسٹيٹ نے اپنے زير قبضہ علاقوں ميں ’نظام خلافت‘ کا اعلان کر رکھا ہے۔

دريں اثناء مغربی ممالک سے ہزاروں نوجوان اس تنظيم کی صفيں مضبوط کرنے کے ليے شام اور عراق کا رخ کر چکے ہيں، جس سبب کئی مغربی ممالک ايسے خدشات کا شکار ہيں کہ يہ افراد وطن واپسی پر اپنے اپنے ملکوں کی سلامتی کے ليے خطرہ نہ بنيں۔ اندازوں کے مطابق جرمنی کے کل ساڑھے پانچ سو افراد اسلامک اسٹيٹ کی رکنيت حاصل کر چکے ہيں، جن ميں سے ساٹھ مسلح کارروائيوں ميں مارے جا چکے ہيں۔ قريب 180 افراد جرمنی لوٹ چکے ہيں اور حکام ان دنوں 300 افراد کے حوالے سے تفتيش جاری رکھے ہوئے ہيں۔