1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام کی روح اور اسلام آباد کا مندر

شیراز راج
9 جولائی 2020

ہندو مندر کی تعمیر کے معاملہ پر جو باہم متضاد احساسات اور رجحانات سامنے آئے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اسلام، پاکستان، آئین، قانون، ریاست، حکومت اور معاشرے کے بنیادی تصورات پر اتفاق رائے نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3f2Hy
DW Urdu Bloger Shiraz Raj
تصویر: privat

بلکہ معاشرتی انتشار کی سی کیفیت ہے۔ ایک نکتہ نظر اسے شرک اور کفر کی بیخ کنی اور بت شکنی کا حکم الہٰی قرار دیتے ہوئے اپنی جانوں پر کھیلنے کو تیار ہے۔ دوسرا نکتہ نظر رواداری، برداشت اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو اسلام کی حقیقی روح سمجھتا ہے اور مندر کی تعمیر کے حق میں ہے۔ ایک درمیانی نکتہ نظر پرانے مندروں کی بحالی، مرمت اور تزئین و آرائش کے تو حق میں ہے لیکن نئے مندر کی تعمیر کو اسلام کی روح کے منافی سمجھتا ہے۔ چوتھے نکتہ نظر کو صرف ریاستی وسائل سے مندر کی تعمیر پر اعتراض ہے۔ کچھ لوگ اسے آئین پاکستان میں دیے گئے شہریوں کے مساوی بنیادی حقوق کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

 گزشتہ روز مندر کے حق میں مظاہرہ کرنے والے شہریوں کا استدلال بھی یہی تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کے نام پر بننے والے ملک میں کسی اقلیتی عبادت گاہ کی تعمیر پر قدغن اس ملک کی اساس اور اس کے جواز سے انکار کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی عقائد اور آئینی حقوق کو گڈ مڈ کرنے سے معاملات سلجھتے نہیں بلکہ مزید الجھ جاتے ہیں۔

 جس طرح عقیدہ اور عبادت لازم و ملزوم نہیں، اسی طرح عبادت اور عبادت گاہ بھی لازم و ملزوم نہیں۔ اکثریتی آبادی کی کم ظرفی ہو، ظالم حکمرانوں کا جبر ہو، دہشتیوں اور تکفیریوں کا خوف ہو، مارشل لاؤں کا سناٹا ہو، کسی مقامی یا عالمی وبا کے حفاظتی ضابطے ہوں، یا کسی بیماری یا ضعف کی لاچاری، عبادت گاہ تک رسائی نہ ہونے سے رب تک رسائی کے راستے مسدود نہیں ہوتے۔ عقیدہ کمزور نہیں ہوتا، بلکہ بیشتر صورتوں میں مضبوط ہوتا ہے۔

عبادت ایک فرد کا اپنے رب سے براہ راست رابطہ ہے، اپنی اعلی ترین کیفیت میں،  یہ الوہی انجذاب سے پھوٹتی سرمستی  ہے، جس میں کسی تیسرے اور بالاخر کسی دوسرے کی گنجائش نہیں رہتی۔ عبادت گاہ ایک مقام ہے جو فرد کو اجتماعی شناخت اور گہری احساس وابستگی دیتا ہے، جزو کو کل کا اعتبار دیتا ہے، عبادت گاہ کا احاطہ، اس کے مینار، علامتیں، استعارے، تزئین و آرائش، اس کا شکوہ اور اس سے جڑی روحانی بالیدگی کی کیفیت اپنے اصل میں احساس تحفظ ہوتا ہے۔

میں نے جب سے عملی زندگی میں قدم رکھا ہے، میں ‘اسلام کی حقیقی روح‘ کی ڈھال اٹھائے ہوئے ہوں۔ مجھ جیسے، 'مسلمانوں کے معذرت خواہ‘ کو کہیں اور عافیت مل بھی نہیں سکتی۔ جو اتنی محبتیں ہنڈائی ہیں، جو اتنی نیک، پارسا، نرم خو، پیار کرنے والی، درد دل رکھنے والی روشن روحیں دیکھی ہیں، انہیں کہاں، کس خانے میں رکھوں؟

دوسری طرف خود راستی کے نشے میں چور، نخوت ذدوں کا دفاع کیسے کروں؟ نفرت، منافرت، دھونس، دھاندلی، تذلیل، تشدد، ناانصافی، منافقت، امتیازی قوانین اور قانونی امتیاز، زنابالجبر، استحصال، اغوا، تشدد، لوٹ کھسوٹ، عبادت گاہوں کا انہدام، الہامی کتب کی تحقیر، قبروں کی تذلیل، کمسن بچیوں کا اغوا، جبری تبدیلی مذہب، نہتوں کا بے سبب قتل، جھوٹے الزامات پر برس ہا برس قید، پاکستان کو اقلیتوں کا جہنم کہنے والوں کو جھٹلانا آسان تو نہیں۔ ظلم کے درجے نہیں ہوتے، یہ کم زیادہ، اچھا برا، جائز ناجائز، اپنا پرایا نہیں ہوتا، یہ ہر جگہ ایک سا ہوتا ہے۔

مذہبی شناخت جب احساس گناہ، احساس کمتری اور احساس شکست کا پردہ بن جاتی ہے تو نمائشی پارسائی اور کھوکھلا تکبر جنم لیتا ہے۔ محبت، عجز، نفاست، رواداری، بردباری، حلیمی، نجابت، اعلی ظرفی اور احترام آدمیت کی جگہ انفرادی و اجتماعی فسطائیت کا چلن رواج پکڑتا ہے۔ دوسرے کی آنکھ کا تنکہ دکھائی دیتا ہے، اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں۔ یہی کہانی ہے دوست، ہماری بھی اور ہمارے دشمنوں کی بھی، ہم سب ایک دوسرے کا آئینہ ہیں اور ہم سب اندھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

سندھ کے میلوں میں رقص کرتے ناچو بچے

یہاں پردیس میں، میرے پاس ایک کتاب ہے، 'پاکستان کے گرجا گھر‘، یہ ایک بڑے حجم کی انگریزی کتاب ہے، جس میں پاکستان کے پرشکوہ، بلندوبالا میناروں والے گرجا گھروں کی خوبصورت تصویریں اور ان کی مختصر تاریخ دی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے یہ کتاب ایک سکہ بند مسیحی انتہا پسند کے ڈرائنگ روم میں دیکھی۔ یہ کتاب احساس تفاخر پیدا کرتی ہے، اسے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے سارے شانتی نگر، گوجرہ، جوزف کالونی اور یوحنا آباد بھول جاتے ہیں۔ یہ پاکستان سے محبت اور وابستگی کو اجاگر کرتی ہے۔ عبادت کا حق، عبادت گاہ کا حق محض دستوری سہولتیں نہیں، یہ قوم سازی کے اساسی تصورات کا اساسی جزو ہے۔ کمزوروں کی داد رسی کرو، انہیں احساس تحفظ دو۔ انہیں وہ حقوق دو، جو بطور اقلیت آپ دنیا سے مانگتے ہو۔

اسلام آباد میں مندر بننے دو! اس میں ہندووں کا فائدہ کم ہے اور پاکستان کا فائدہ زیادہ ہے۔ یہ آپ کے اور پاکستان کے 'معذرت خواہوں‘ کو تقویت پہنچائے گا، زخموں پر پھاہا رکھے گا۔ ورنہ ہندو جن بتوں کو پوجتے ہیں، وہ مٹی پتھر کے نہیں اعتقاد کے بنے ہیں اور مندروں میں نہیں، دلوں میں بستے ہیں۔ دلوں کے بت ٹوٹتے نہیں، پگھلتے ہیں اور وہ بھی محبت کی حرارت سے۔ ارے! اختر حسین جعفری کی لازوال نعت یاد آ گئی۔ چند مصرعے سن لیجیے۔

تُنک مزاجوں

لباس نا آشنا رواجوں کی سلطنت میں

وہ صاحبِ جامہ و ردا تھا

وہ نرم لہجے میں بولتا تھا