1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں، فرانسیسی وزیر اعظم

مقبول ملک15 جون 2015

فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والس نے آج پیر پندرہ جون کے روز پیرس میں ایک کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ نہ تو نفرت اور انتہا پسندی اسلام ہیں اور نہ ہی اسلام اور شدت پسندی کے مابین کوئی باہمی ربط پایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FhQT
فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والستصویر: Reuters/Philippe Wojazer

فرانسیسی دارالحکومت سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق فرانس کی بہت بڑی مسلم برادری کے ساتھ معاشرے کے باقی ماندہ حصوں کے تعلقات میں بہتری کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مانوئل والس نے کہا، ’’نفرت بھری تقریریں، اسرائیل کے لیے نفرت کے پیچھے کارفرما سام دشمنی، وہ شدت پسندی جو ہمارے علاقوں میں مساجد کے خود ساختہ امام پھیلا رہے ہیں اور وہ دہشت گردی جس کی ہماری جیلوں میں ترویج کی جا رہی ہے، ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہ سب کچھ اصلی اسلام نہیں ہے۔‘‘

فرانسیسی وزیر اعظم نے آج جس ایک روزہ کانفرنس کا افتتاح کیا، وہ ملک کی اعلٰی مسلم شخصیات کے ساتھ تبادلہ خیال اور تعمیری بحث کے اس پروگرام کا حصہ ہے، جس پر عمل درآمد کا فیصلہ پیرس حکومت نے پانچ ماہ قبل پیرس میں ایک طنزیہ جریدے ’شارلی ایبدو‘ کے صدر دفتر پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد کیا تھا۔ اس حملے میں 17 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی تھی۔

فرانس میں، جو آبادی کے لحاظ سے یورپی یونین کے تین بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے، مجموعی طور پر قریب پانچ ملین مسلمان آباد ہیں۔ یہ یورپ کے کسی بھی ملک کی آبادی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

مانوئل والس نے آج جس کانفرنس کا افتتاح کیا، اس میں فرانسیسی مسلمانوں کے 120 سے لے کر 150 تک اعلیٰ نمائندوں کے علاوہ کئی اعلیٰ سرکاری اور حکومتی شخصیات بھی حصہ لے رہی ہیں۔ اس اجتماع کو اس میں ہونے والے مباحثے کے باعث ایک فورم کا نام دیا گیا ہے۔ اس دوران جن اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے، ان میں مذہبی عبادت گاہوں کی حفاظت، مساجد کے آئمہ کی میڈیا میں ساکھ اور نئی مساجد کی تعمیر کے منصوبے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

Frankreich Frau mit Burka und Reisepass
فرانس میں مسلم خواتین کی طرف سے عوامی زندگی میں نقاب پہننے پر چند سال قبل پابندی عائد کر دی گئی تھیتصویر: AP

پیرس میں ملکی وزارت داخلہ کی عمارت کے اندر ہونے والی اس کانفرنس میں البتہ انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر کوئی بات نہیں کی جا رہی۔ وزارت داخلہ کے مطابق اس موضوع کو اس فورم کے ایجنڈے میں اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ ایسا کرنے سے فرانسیسی معاشرے کو مجموعی طور پر اور مقامی مسلم برادری کو خاص طور پر منفی پیغام ملتا۔

اے ایف پی کے مطابق پیرس حکومت فرانس میں مسلم آبادی کے ساتھ مکالمت کے فروغ کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے، ان میں اس فورم کا انعقاد بھی شامل ہے لیکن یہ ایک مشکل کام بھی ہے۔ اس لیے کہ حکومت فرانسیسی مسلمانوں کے نمائندوں کے ساتھ مکالمت تو چاہتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتی کہ وہ مقامی مسلم آبادی کو باقی ماندہ معاشرے سے الگ کر کے دیکھنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ فرانس کے سابق صدر نکولا سارکوزی کی اس وقت اپوزیشن میں موجود دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعت نے اسی مہینے ایک ایسے داخلی اجلاس کا اہتمام بھی کیا تھا، جسے ’فرانس میں اسلام کا سوال‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ لیکن اس اجلاس پر خود سارکوزی کی پارٹی کے اندر سے کئی ارکان اور متعدد مسلم گروپوں کی طرف سے یہ کہہ کر تنقید کی گئی تھی کہ اس طرح اسلام کا نام برے انداز میں پیش کرنے اور اسلام کے بارے میں برا تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی۔