1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا کابل ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لے گا؟

15 جولائی 2023

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سخت بیان کے بعد ملک کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی آج ہفتے کو افغان طالبان پر الزام لگایا کہ وہ پڑوسی ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔

https://p.dw.com/p/4Tx67
Pakistan und afghanische Taliban einigen sich
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان پر الزام لگایا ہے کہ وہ دوحہ امن معاہدے کی ان شقوں پر عمل نہیں کر رہے جن کا تعلق افغان سرزمین کے دہشت گردانہ کاروائیوں کے استعمال نہ کرنے سے ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ آرمی چیف کا بیان اور خواجہ اصف کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور وہ افغان طالبان سے تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے خلاف سخت ایکشن چاہتا ہے۔ لیکن مبصرین اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا کابل ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن بھی لے گا یا نہیں، کیونکہ ٹی ٹی پی بھی اپنا نظریاتی امیر افغان طالبان کے سربراہ کو ہی قرار دیتی ہے۔

پاکستانی سر زمین پر حملے، پاکستانی فوجی سربراہ کا افغان طالبان کو انتباہ

بلوچستان: ژوب اور سوئی میں فوج پر حملوں میں بارہ جوان ہلاک

پاکستان کے سخت بیانات

خواجہ اصف کے بیان سے پہلے آرمی چیف عاصم منیر نے کہا تھا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ  گاہیں ہیں اور انہیں نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہے. خواجہ آصف نے اپنی ایک ٹویٹ میں الزام لگایا کہ افغانستان نہ ہی بحیثیت ایک پڑوسی ملک اور نہ برادر مسلم ملک کے طور پر اپنے فرائض پورے کر رہا ہے اور یہ کہ کابل حکومت امن معاہدے کی بھی  پاسداری نہیں کر رہی۔ خواجہ آصف نے شکوہ کیا کہ پاکستان 50 سے 60 لاکھ افغان مہاجرین کی 40 سال سے میزبانی کر رہا ہے، اس کے بدلے میں جو دہشت گرد پاکستانیوں کا خون بہاتے ہیں انہیں افغان سرزمین پر پناہ ملتی ہے۔

Pakistan Bezirk Zhob Angriff
بدھ کے روز صوبہ بلوچستان میں ژوب شہر میں فوجی چھاؤنی پر حملے کے نتیجے میں نو فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔تصویر: DW

خواجہ اصف نے خبردار کیا کہ اس طرح کی صورتحال زیادہ عرصے نہیں چل سکتی۔ خواجہ اصف کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کی حفاظت کے لیے تمام طرح کے  وسائل استعمال کرے گا اور اقدامات اٹھائے گا۔

’معاملہ مذاکرات سے حل ہونا چاہیے‘

خواجہ اصف کے اس بیان سے کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ پاکستان ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کر سکتا ہے۔ دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیئر حارث نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ یہ معاملات  مذاکرات سے حل ہوں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بھارت کی کوشش ہے کہ کسی طرح افغان طالبان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوں لیکن ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی طرح کا ملٹری ایکشن صرف آخری آپشن کے طور پہ استعمال ہونا چاہیے۔‘‘

نظریہ، ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہ لینے کی وجہ

حارث نواز کے مطابق افغان طالبان کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ پاکستان انہیں کئی اشیاء بھیج رہا ہے اور بین الاقوامی طور پر ان کے سیاسی امیج کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے: ”لیکن اس کے باوجود نظریاتی وجوہات کی بنا پر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہیں لے رہے، کیونکہ دونوں نے مل کر امریکہ کے خلاف جنگ لڑی۔ تاہم  پاکستان میں حکومتی حلقوں کو ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہ لینے پر سخت تشویش ہے۔ اس تشویش میں حالیہ حملوں کے بعد مزید اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا افغان طالبان کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے۔‘‘

افغان طالبان کا خوف

ایک افغان صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”افغان طالبان کبھی بھی ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر انہوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لیا تو وہ داعش کے ساتھ مل سکتی ہے جس کی وجہ سے افغان طالبان کے لیے پریشانیاں مزید بڑھ جائیں گی۔‘‘

اس افغان صحافی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے درمیان اندرونی طور پر بہت سارے مسائل چل رہے ہیں جبکہ ملک کے معاشی حالات بھی بہت برے ہیں: ''ایسے میں افغان طالبان کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ایک لڑائی کا نیا محاذ کھولیں اور ٹی ٹی پی کے خلاف ہتھیار اٹھائیں جنہوں نے امریکی حملے کے بعد طالبان کی مدد کی تھی۔‘‘

طالبان دوسرے ممالک کی طرف دیکھ سکتے ہیں

اس افغان صحافی کا دعویٰ تھا کہ اگر پاکستان نے افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی کو ٹارگٹ کیا تو وہ افغان طالبان کی ممکنہ طور پر سپورٹ کھو سکتا ہے: ”یہ تاثر غلط ہے کہ جن کے ہاتھ میں ہتھیار ہوتے ہیں وہ کسی ایک فرد یا ادارے کے وفادار ہوتے ہیں۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، تو افغان طالبان پاکستان کی آئی ایس آئی پرانحصار کرتے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی لڑائی نہیں روکی اب اگر پاکستان افغان طالبان پر مزید دباؤ ڈالے گا تو وہ ایران، روس چین یا کسی اور ملک سے شراکت داری کر سکتے ہیں، جس کا پاکستان کو نقصان ہوگا۔‘‘

ہم ٹی ٹی پی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، بلاول بھٹو زرداری

اسلام اباد سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر بکارے نجم الدین اس افغان صحافی کے اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے افغانستان کے اندر ٹی ٹی کے خلاف ملٹری اسٹرائکس کیں، تو یہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ بکارے نجم الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طالبان کی قیادت دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ اندرونی طور پہ بالکل خود مختار ہے۔ اگر ٹی ٹی پی کو رکھنا افغان طالبان کے قومی مفادات اور ان کی خارجہ پالیسی کے لیے فائدہ مند ہوگا، تو وہ ان کو رکھیں گے اور پاکستان کے دباؤ پر وہ کسی طرح کا ایکشن ان کے خلاف نہیں لیں گے۔‘‘

 ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان نے افغانستان میں کوئی فوجی کارروائی کی تو اس سے پاکستان کو نقصان ہوگا، ''ایسی صورت میں افغان طالبان اور پاکستانی طالبان دونوں مل کر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پاکستان میں عسکریت پسندی کا معاملہ بھی بہت سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔‘‘