اسلام آباد میں گھریلو استعمال کے پانی کی شدید ہوتی ہوئی کمی
30 دسمبر 2023آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں سب سے بڑے ملک پاکستان میں صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی میں تو پینے کے صاف پانی کی انتہائی ناکافی دستیابی اتنا شدید مسئلہ ہے کہ وہاں عام شہری عشروں سے پانی کے ٹینکر خریدتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ کاروباری حلقے سالانہ اربوں روپے کماتے ہیں، جنہیں ”ٹینکر مافیا" کہا جاتا ہے۔
اسی طرح صوبہ پنجاب کے دارالحکومت اور ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بھی، جہاں ماضی میں شہریوں کو گھروں میں نلوں سے دن بھر پینے کا صاف پانی میسر ہوتا تھا، صورت حال واضح طور پر بدل کر بہتر کے بجائے ابتر ہو چکی ہے۔ لاہور میں کافی عرصے سے اب دن کے وقت بھی پانی کی ”لوڈ شیڈنگ" ہوتی ہے جبکہ وہ شہری جو پینے کے لیے دکانوں سے بوتلوں میں بند منرل واٹر نہیں خرید سکتے، ان کی بڑی تعداد مقامی طور پر لگائے گئے واٹر فلٹرنگ پلانٹس سے پینے کا پانی گھروں میں لاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس وقت اگر وفاقی یا صوبائی دارالحکومتوں میں حالات ایسے ہیں، تو مستقبل میں جب یہی مسئلہ شدید تر ہو جائے گا، تو پھر پاکستانی عوام کی پینے کے صاف اور گھروں میں عام استعمال کے پانی تک کافی رسائی کی صورت حال کیا ہو گی؟
پاکستان میں پانی صحت کے لیے کس حد تک نقصان دہ؟
پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی سن دو ہزار اکیس بائیس کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے 24 مختلف اضلاع اور 2807 دیہات سے پانی کے نمونے حاصل کر کے جب ان کے ٹیسٹ گیے گئے تو معلوم ہوا کہ ملک کا 62 سے 82 فیصد تک پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں صرف 15 فیصد اور دیہی علاقوں میں صرف 18 فیصد تک صاف پانی مہیا کیا جا رہا تھا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے پینے کے پانی کے 24 نمونے لیے گئے تھے جن میں سے 17 محفوظ تھے اور سات غیر محفوظ۔
اسلام آباد میں کتنے فیصد شہریوں کو صاف پانی دستیاب ہے، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واٹر مینجمنٹ سردار خان زمری سے گفتگو کی۔ انہوں نے ایک تفصیلی انٹرویو میں بتایا کہ شہری آبادی کی پانی کی باقاعدہ ریکارڈ شدہ طلب 120 ملین گیلن روزانہ بنتی ہے جبکہ اس اتھارٹی کے پاس تمام وسائل ملا کر بھی 80 ملین گیلن روزانہ سے زیادہ پانی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ زیر زمین آبی وسائل کم ہونے اور بارشوں کے انداز اور حجم میں تبدیلی کے باعث شہر کو پانی مہیا کرنے والے دو بڑے ذریعے سملی ڈیم اور خان پور ڈیم مسلسل بڑھتی ہوئی طلب کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
اسلام آباد میں واٹر فلٹریشن پلانٹ
کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سردار خان زمری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”دیہی علاقوں کے بارے میں بتانا ذرا مشکل ہے۔ لیکن اسلام آباد کے سو فیصد شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے سی ڈی اے نے سو فلٹریشن پلانٹس لگا رکھے ہیں۔ ہر سیکٹر میں 10 سے 16 تک فلٹریشن پلانٹ موجود ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے یہ کام مختلف غیر حکومتی تنظیموں کے ساتھ مل کر بھی کیا جا رہا ہے جس کے بہت مثبت نتائج نکلے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ میں خود اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس ٹو کا رہائشی ہوں اور وہاں کے ہزاروں دیگر مکینوں کی طرح اپنے گھر کے نلکے کا پانی ہی پیتا ہی ہوں۔ میں نے خود کئی بار یہ پانی ٹیسٹ کرایا ہے جو ہمیشہ بالکل صاف نکلا۔‘‘
سی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل واٹر مینجمنٹ سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر شہر کا پانی اتنا ہی صاف ہے تو پھر مقامی طور پر بھی منرل واٹر کا کاروبار اتنے عروج پر کیوں ہے، تو انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ سچ ہے کہ دراصل کبھی کبھار پائپ ٹو ٹنے سے سیوریج کا پانی شامل ہونے سے آلودہ پانی کی شکایات بھی ملتی ہیں جن پر فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ ان کے بقول چالیس پچاس سال پرانے سسٹم میں یہ خرابیاں تو ہوتی ہیں لیکن جب کوئی اس طرح کا واقعہ ہوتا ہے تو لوگ ڈر جاتے ہیں اور اسی لیے بوٹل واٹر خریدنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں کے گھر تو کروڑوں روپے کے ہوتے ہیں لیکن پانی کی سٹوریج یا ٹینکیوں کی صفائی سالہا سال تک نہیں کروائی جاتی۔ ''تو جب عام شہری چار پانچ ہزار روپے دے کر وقفے وقفے سے اپنے گھروں کی پانی کی ٹینکیاں بھی صاف نہیں کرائیں گے تو پھر ان میں موجود پانی آلودہ تو ہو ہی جائے گا۔‘‘
دستیاب آبی وسائل کا بے دریغ ضیاع
اس انٹرویو میں سردار خان زمری نے اظہار افسوس کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پانی کی اتنی شدید قلت کے باوجود اس کا بےدریغ ضیاع جاری ہے، ہر روز گھروں کے پورچ اور گاڑیاں دھونا، باغیچے کو بےتحاشا پانی دینا اور بہت سے لوگ تو اپنے گھروں کے سامنے سڑک تک گھریلو پانی کے پائپ سے دھو رہے ہوتے ہیں۔ پینے کے پانی کی قلت کے شکار اس ملک میں یہ سب جرم ہونا چاہیے۔ اسی لیے اب سی ڈی اے کی طرف سے ایسے صارفین کو پانچ سے دس ہزار روپے تک جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔‘‘
سردار خان زمری نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان کے بہت سے شہروں اور علاقوں میں پینے کے صاف اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کی ناکافی دستیابی کے مسئلے کی وجوہات صرف ماحولیاتی تبدیلیاں یا زیر زمین پانی کی سطح کا مزید کم ہو جانا ہی نہیں۔ ان وجوہات میں آبی وسائل کی ناقص دیکھ بھال اور غلط انتظامی فیصلے بھی نمایاں ہیں۔ گزشتہ تیئیس برسوں سے نہ تو کوئی ڈیم بنا اور نہ ہی صاف پانی کی دستیابی کی طرف توجہ دی گئی۔ صاف الفاظ میں، صاف پانی کی فراہمی کوئی ترجیح نہیں ہے۔ اسے حکومتی بے حسی کہیں یا پریشان کن رویہ، لیکن یہی حقیقت ہے۔ اگر درجنوں انڈر پاس بن سکتے ہیں، دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو سکتا ہے، تو آبی وسائل بڑھانے پر توجہ کیوں نہیں دی جا سکتی؟ اگر یہی صورتحال رہی تو 2024 کے موسم گرما میں ملک کو پانی کے شدید بحران کا سامان کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
عام صارفین کیا کہتے ہیں؟
پاکستانی دارالحکومت کے علاقے کراچی کمپنی کی رہائشی عائشہ بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے گھروں میں کھانا پکانے کا کام کرتی ہیں اور ان کا شوہر مزدوری کرتا ہے۔ ان کے پانچ بچے ہیں جو سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔ عائشہ بی بی نے بتایا، ''میرے بچے آئے روز بیمار رہتے ہیں۔ کبھی پیٹ خراب تو کبھی اسہال، کبھی قے تو کبھی بخار۔ میری تین سالہ بیٹی کو دوسری بار ٹائفائیڈ بخار ہوا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ سب بیماریاں آلودہ پانی پینے سے ہوتی ہیں۔ ہم نلکے کا پانی ہی پیتے ہیں۔ ہمارے لیے تو دال روٹی کا انتظام کرنا ہی مشکل ہوتا ہے، تو ہم دکانوں سے بوتلوں کا مہنگا پانی کیسے خرید سکتے ہیں؟‘‘
اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون کے رہائشی ملک محمد اعوان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بھاری ٹیکس ادا کرنے کے باوجود بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور انہیں پینے کا پانی تک خریدنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''میرے چار بچے ہیں اور ہمارے گھر کے چھ افراد کا مہینے بھر کا پانی کا خرچہ پندرہ ہزار روپے سے زیادہ ہی رہتا ہے۔ اگر خاندان بڑا یا مشترکہ ہو اور افراد زیادہ ہوں، تو یہی خرچ دگنا ہو جاتا ہے۔ آلودہ پانی پینے سے جو بیماریاں لگتی ہیں، ان کی وجہ سے صرف عام شہریوں کی صحت ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ صحت اور معیشت جیسے ملکی شعبوں کو بھی جو اربوں روپوں کا نقصان ہوتا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟‘‘
طبی ماہرین کے مطابق آلودہ پانی پینے سے لگنے والی بیماریاں دنیا بھر میں ہر سال انسانی اموات کی بڑی لیکن قابل انسداد وجوہات میں شمار ہوتی ہیں اور ان امراض کا شکار زیادہ تر کم عمر بچے ہوتے ہیں۔