1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

اسرائیلی جیلوں میں قید سرکردہ ترین فلسطینی: کون کون شامل؟

19 جنوری 2025

غزہ سیزفائر معاہدے میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے بہت سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں بند سرکردہ ترین فلسطینی قیدیوں میں کون کون شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/4pL44
اگست دو ہزار دو: مروان برغوتی، ہتھکڑیاں پہنے ہوئے، کی تل ابیب میں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں لی گئی ایک تصویر
اگست دو ہزار دو: مروان برغوتی، ہتھکڑیاں پہنے ہوئے، کی تل ابیب میں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں لی گئی ایک تصویرتصویر: Brennan Linsle/AP Photo

غزہ کی جنگ میں اتوار 19 جنوری سے نافذالعمل ہونے والی سیزفائر ڈیل میں یہ بات طے نہیں ہوئی کہ حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے مجموعی طور پر کتنے یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے کتنے فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بات بھی غیر واضح ہے کہ حماس کی حراست میں اسرائیلی یرغمالیوں میں سے اب تک کتنے زندہ ہیں اور کتنے مارے جا چکے ہیں۔

غزہ کی جنگ: مجوزہ فائر بندی معاہدے کے اہم نکات

جہاں تک اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینی قیدیوں کی موجودہ مجموعی تعداد کا تعلق ہے، تو وہ 10,400 بنتی ہے۔ اس تعداد میں وہ فلسطینی شامل نہیں، جنہیں غزہ کی جنگ کے دوران گزشتہ 15 ماہ سے بھی زائد عرصے میں اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا۔ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی اس تعداد کی تصدیق فلسطینی قیدیوں سے متعلق سوسائٹی اور قیدیوں سے متعلقہ امور کے فلسطینی کمیشن دونوں نے کی ہے۔

اوسلو معاہدے کے وقت فلسطینی تنظیم ہی ایل اور کے رہنما یاسر عرفات، دائیں، اور اس دور کے اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی ہاتھ ملاتے ہوئے لی گئی ایک تاریخی تصویر
اوسلو معاہدے کے وقت فلسطینی تنظیم ہی ایل اور کے رہنما یاسر عرفات، دائیں، اور اس دور کے اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی ہاتھ ملاتے ہوئے لی گئی ایک تاریخی تصویرتصویر: Terje Bendiksby/NTB/picture alliance

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید سرکردہ ترین فلسطینی قیدی کون کون سے ہیں، جن کے بارے میں حماس کی خواہش ہو گی کہ اسرائیل انہیں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے رہا کر دے۔

سرکردہ فلسطینی قیدی جن کا تعلق حماس سے ہے

عبداللہ البرغوتی

عبداللہ البرغوتی کو 2004ء میں 67 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ایک اسرائیلی فوجی عدالت نے انہیں 2001ء اور 2002ء میں کیے جانے والے ان متعدد خود کش بم حملوں میں ملوث مجرم قرار دیا تھا، جن میں درجنوں اسرائیلی مارے گئے تھے۔

عبداللہ البرغوتی تین بچوں کے والد ہیں اور وہ 1972ء میں کویت میں پیدا ہوئے تھے۔ 1996ء میں وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے رام اللہ کے نواح میں ایک گاؤں میں آباد ہو گئے تھے۔

جولائی سن دو ہزار میں امریکہ میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر اس دور کے امریکی صدر بل کلنٹن، درمیان میں، یاسر عرفات، دائیں، اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کے ساتھ
جولائی سن دو ہزار میں امریکہ میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر اس دور کے امریکی صدر بل کلنٹن، درمیان میں، یاسر عرفات، دائیں، اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کے ساتھتصویر: RON EDMONDS/AP/picture alliance

ابراہیم حامد

ابراہیم حامد کو 2006ء میں رام اللہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور اور انہیں درجنوں اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے متعدد خود کش بم حملوں کی منصوبہ بندی کے جرم میں مجموعی طور پر 54 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ابراہیم حامد اپنی گرفتاری سے پہلے آٹھ سال تک اسرائیل کو سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل رہے تھے۔ حامد مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں حماس کے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈز کے اعلیٰ کمانڈر تھے۔ انہوں نے رام اللہ یونیورسٹی سے علم سیاسیات میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

نائل برغوتی

1957ء میں پیدا ہونے والے نائل برغوتی 44 برس اسرائیلی جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ یہ عرصہ ان کی 67 سالہ زندگی کے دوتہائی کے برابر بنتا ہے۔ ان سے زیادہ عرصہ اسرائیلی جیلوں میں کسی دوسرے فلسطینی قیدی نے نہیں گزارا۔ وہ عرف عام میں فلسطینی قیدیوں کے 'ڈین‘ بھی کہے جاتے ہیں۔

دو ریاستی حل کیا ہے اور اس مقصد کے حصول میں کیا کیا مسائل حائل ہیں؟

رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کا اسرائیل پر تشدد کا الزام

نائل برغوتی کو پہلی مرتبہ 1978ء میں سزائے قید سنائی گئی تھی، جب انہوں نے ایک ایسے حملے میں حصہ لیا تھا، جس میں یروشلم میں ایک اسرائیلی فوجی مارا گیا تھا۔ نائل برغوتی کو 1978ء میں جب عمر قید کی سزا سنائی گئی، تو وہ یاسر عرفات کی فتح تحریک کے مسلح بازو کے ایک رکن تھے۔ بعد میں وہ ایک یرغمالی اسرائیلی فوجی کی رہائی کے بدلے ان فلسطینیوں کے ساتھ آزاد کر دیے گئے تھے، جن کی تعداد تقریباﹰ ایک ہزار بنتی تھی۔ اس عرصے میں وہ حماس میں شامل ہو گئے تھے، جس کی بنیاد 1987ء میں رکھی گئی تھی۔

حسن سلامہ

1971ء میں غزہ پٹی کے شہر خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہونے والے حسن سلامہ کو 1996ء میں اسرائیل میں متعدد خود کش بم دھماکوں میں درجنوں اسرائیلیوں کی ہلاکت کا شریک مجرم ہونے پر ایک اسرائیلی عدالت نے سزا سنائی تھی۔ انہیں 48 مرتبہ عمر قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ سلامہ کو ویسٹ بینک کے شہر عبرون سے 1996ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔

فلسطینیوں کی فتح تحریک کے سرکردہ رہنما مروان برغوتی کی جنوری دو ہزار بارہ میں یروشلم میں ایک عدالت میں پیشی کے دوران لی گئی ایک تصویر
فلسطینیوں کی فتح تحریک کے سرکردہ رہنما مروان برغوتی کی جنوری دو ہزار بارہ میں یروشلم میں ایک عدالت میں پیشی کے دوران لی گئی ایک تصویرتصویر: Bernat Armangue/AP Photo

سرکردہ فلسطینی قیدی جن کا تعلق حماس سے نہیں

مروان برغوتی، فتح تحریک

اسرائیلی جیلوں میں بہت سے ایسے سرکردہ فلسطینی بھی قید ہیں، جن کا تعلق حماس سے نہیں ہے۔ ان میں سے ایک فلسطینیوں کی فتح تحریک کے نمایاں رہنما مروان البرغوتی ہیں، جنہیں موجودہ فلسطینی صدر محمود عباس کا ممکنہ جانشین بھی قرار دیا جاتا ہے۔

اسرائیل میں طویل ترین قید کاٹنے والا فلسطینی بالآخر رہا

مروان برغوتی کو فلسطینیوں کی انتفادہ نامی دونوں بڑی مزاحمتی تحریکوں کا رہنما اور منتظم سمجھا جاتا ہے۔ انہیں 2002ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔

فلسطینیوں کی فتح تحریک کے عہدیداروں کے مطابق یاسر عرفات کی زندگی میں ان کی فتح تحریک کے عسکری بازو کے طور پر خود یاسر عرفات ہی کے حکم پر الاقصیٰ شہداء بریگیڈ کی بنیاد مروان برغوتی نے ہی رکھی تھی۔

جولائی دو ہزار بیس میں غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے ایک  مظاہرے کے دوران شرکاء صدر محمود عباس، دائیں، کی ایک تصویر اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے رہنما احمد سعدات، بائیں، کی تصویر والے پوسٹر اٹھائے ہوئے
جولائی دو ہزار بیس میں غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے ایک مظاہرے کے دوران شرکاء صدر محمود عباس، دائیں، کی ایک تصویر اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے رہنما احمد سعدات، بائیں، کی تصویر والے پوسٹر اٹھائے ہوئےتصویر: SAID KHATIB/AFP/Getty Images

احمد سعدات، پی ایف ایل پی

احمد سعدات عوامی محاذ‌ برائے آزادی فلسطین یا پی ایف ایل پی کے رہنما ہیں اور ان پر اسرائیل نے 2001ء میں اسرائیلی وزیر سیاحت ریہاوام کے قتل کا حکم دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے 2006ء میں سعدات کو گرفتار کیا تھا اور پھر ان پر ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔ انہیں 2008ء میں 30 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

م م / ع ت (روئٹرز)

غزہ سیزفائر جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی؟