1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویئر، غلط استعمال پر بند کرنے کی دھمکی

9 فروری 2020

ایک اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنی پر الزام ہے کہ اس نے جاسوسی کے لیے بنائے گئے اپنے سافٹ ویئر کے غلط استعمال پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ تاہم اس کمپنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ماضی میں ایسے صارفین کو ’شٹ ڈاؤن‘ کرتی رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3XUaJ
Symbolbld Cyberkriminalität
تصویر: Imago/photothek/T. Trutschel

اسرائیل حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں سائبر سکیورٹی ٹیکنالوجی کی ایجاد میں سرفہرست رہا ہے۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی جدید ترین ایجادات اور اس صنعت کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ان میں اسرائیلی خفیہ اداروں کے سابق اہلکار بھی بھرتی کیے جاتے ہیں۔

ایسی ہی ایک مشہور لیکن بدنام زمانہ اسرائیلی کمپنی کا نام این ایس او ہے۔ اس کمپنی کے اعلیٰ اہلکار اسرائیل کے ایلیٹ سگنل انٹیلی جنس یونٹ 8200 میں کام کر چکے ہیں۔ بدنام زمانہ پیگاسس اسپائی ویئر بھی اسی کمپنی کی ایجاد ہے۔

انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لیے سرگرم عالمی تنظیمیں این ایس او پر الزام عائد کرتی ہیں کہ یہ اسرائیلی کمپنی اپنے جاسوس سافٹ ویئر کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کرتی۔

اسرائیلی اسپائی ویئر اور سعودی عرب

سعودی عرب بھی مبینہ طور پر اسرائیلی سافٹ ویئر استعمال کر رہا ہے۔ اس کا تازہ ترین انکشاف تب ہوا جب سعودی اہلکاروں نے ایمازون کے سربراہ جیف بیزوس کا موبائل فون ہیک کرنے کی کوشش کی تھی۔ این ایس او کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے میں اسرائیلی سافٹ ویئر استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم اس کے علاوہ بھی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد امریکا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک میں مقیم ان کے قریبی دوستوں کی جاسوسی کے لیے یہی سافٹ ویئر استعمال کیا گیا تھا۔

'سافٹ ویئر صرف سکیورٹی مقاصد کے لیے ہے‘

این ایس او گروپ کے مطابق ان کے تیار کردہ اسپائی ویئرز کے لائسنس صرف سنجیدہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ کمپنی کے مطابق اس نے اسپائی ویئر کا غلط استعمال روکنے کے لیے کئی اقدامات کر رکھے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے این ایس او کے ایک ترجمان نے کہا، ''ہمارے صارفین معاہدے کے تحت پابند ہیں کہ وہ این ایس او گروپ کے مطالبے پر تحقیقات میں تعاون کریں گے اور غلط استعمال کی تصدیق ہونے کی صورت میں ہم ان کا سسٹم شٹ ڈاؤن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور ماضی میں ہم نے ایسا کیا بھی ہے۔‘‘

گروپ کے مطابق وہ اقوام متحدہ کے کاروبار اور انسانی حقوق سے متعلق رہنما اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سافٹ ویئر فروخت کرتے ہیں۔ تاہم کمپنی نے یہ بھی کہا کہ غلط استعمال روکنے کے لیے مزید اقدامات کے باوجود ایسے عمل کی ذمہ داری صارف پر عائد ہوتی ہے۔

'تبدیلی کے اثرات دکھائی نہیں دے رہے‘

این ایس اے کے دعووں کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے اسپائی ویئر کا غلط استعمال روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے عملی اثرات دکھائی نہیں دیتے۔

Israel Spyware
این ایس او کا دفترتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Cheslow

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ٹیکنالوجی سے متعلق شعبے کی ڈپٹی پروگرام ڈائریکٹر ڈانا اینگلٹن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی کی جانب سے انسانی حقوق کی اہمیت کے بارے میں بیانات دینے اور اس پر عمل کرنے میں بہت فرق ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''اب تک کمپنی کی انسانی حقوق کے بارے میں (نئی) پالیسی کے کمپنی کے طرز عمل پر اثرات مرتب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔‘‘

اسرائیل میں بھی اس کمپنی کے خلاف تیس افراد نے ایک مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس میں کمپنی کے سافٹ ویئر کا برآمدی لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ لائسنس اسرائیلی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔

واٹس ایپ بھی متاثرین میں شامل

این ایس او کے تیار کردہ سافٹ ویئر کے غلط استعمال کی ایک مثال گزشتہ برس بھی سامنے آئی تھی۔ واٹس ایپ کی ایک خامی کو استعمال میں لاتے ہوئے اسرائیلی سافٹ ویئر صرف ایک واٹس ایپ مس کال کے ذریعے صارف کے فون پر انسٹال ہو جاتا تھا۔

واٹس ایپ کی مالک کمپنی فیس بُک نے بھی گزشتہ برس اکتوبر میں این ایس او کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی کمپی نے دنیا کے بیس ممالک میں 1400 سے زیادہ صارفین کے فون ہیک کرنے میں غیر ملکی حکومتوں کی مدد کی تھی۔

لوئیز سانڈرز فور - ش ح / ا ا