1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'اسرائیل کے ساتھ معمول کے روابط کا قیام جرم،‘ تیونس میں بحث

3 نومبر 2023

تیونس کی پارلیمان میں ایک ایسے بل پر بحث جاری ہے، جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کا قیام قابل سزا جرم ہو گا۔ قصور وار پائے جانے پر دس سال تک قید یا تیس ہزار یورو تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔

https://p.dw.com/p/4YM2S
تیونس کی پارلیمان میں ایک ایسے بل پر بحث جاری ہے، جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کا قیام قابل سزا جرم ہو گا
تیونس کی پارلیمان میں ایک ایسے بل پر بحث جاری ہے، جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کا قیام قابل سزا جرم ہو گاتصویر: Yassine Mahjoub/NurPhoto/picture alliance

ایسے وقت میں جب اسرائیل کی طرف سے غزہ میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے، تیونس  کی پارلیمنٹ میں جمعرات کو ایک بل پر بحث شروع ہوئی، جس میں اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کے قیام کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص تعلقات کو معمول پر لانے کا مجرم پایا گیا اسے چھ سے دس سال تک قید اور دس ہزار سے ایک لاکھ تیونس دینار (تین ہزار سے تیس ہزار یورو) جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ بار بار اس جرم کو کرنے والے کو عمر قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

عرب ممالک فلسطینیوں کی نئی نقل مکانی سے خوف زدہ

تیونس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر براہیم بود ربالہ نے بل پر بحث شروع کرانے سے قبل اراکین پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''اس معاملے پر صدر، پارلیمان اور رائے عامہ میں مکمل اتفاق ہے۔‘‘

یہ بل کتنا اہم ہے؟

قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کو غیر قانونی قرار دینے کی تجویز کو پارلیمنٹ اور عوام میں بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس بل کو اکتوبر کے اواخر میں قانون سازوں کے ایک ایسے گروپ نے تیار کیا تھا اور منظوری دی، جسے صدر قیس سعید کی حمایت حاصل ہے۔

تیونس میں حالیہ دنوں فلسطینیوں کی حمایت میں بڑ ے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں
تیونس میں حالیہ دنوں فلسطینیوں کی حمایت میں بڑ ے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیںتصویر: Hasan Mrad/ZUMA Wire/IMAGO

صدر سعید فلسطینی کاز کے پرزور حامی

خیال رہے کہ تیونس کے صدر قیس سعید فلسطینی کا ز کے پرزور حامی رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، "فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا تیونس کا فرض ہے اور جو کوئی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی بات کرتا  ہے وہ غدار ہے۔"

اسرائیل پر حماس کے حملے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران تیونس میں حالیہ دنوں فلسطینیوں کی حمایت میں بڑ ے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کی ہے۔

غزہ پر حملے: بولیویا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے

براہیم بود ربالہ نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین کو دریاؤں سے لے کر سمندروں تک پوری طرح آزاد ہونا چاہیے اور فلسطینی ریاست کا قیام ہونا چاہیے، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔"

متعددعرب ملکوں میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں
متعددعرب ملکوں میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیںتصویر: ANWAR AMRO/AFP/Getty Images

عرب ممالک میں عوامی مخالفت میں اضافہ

گوکہ عرب رہنماؤں کی جانب سے اسرائیل کے غزہ پر حالیہ حملوں کی مذمت کی گئی ہے اور امن کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا اثر خطے کے دیگر عرب ممالک پر بھی پڑ رہا ہے۔ وہ عرب ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر ہیں یا جو ان تعلقات کو بہتر بنانے پر غور کر رہے ہیں وہاں اس بات کے لیے عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو ختم کیا جائے۔

وہ ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اب تک نہیں ہیں

مراکش کے دارالحکومت رباط اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکلے۔ اسی طرح بحرین کے دارالحکومت مناما میں گزشتہ ماہ اسرائیل کے سفارت خانے کے باہر سینکڑوں لوگ جمع ہوئے، جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پرچم تھامے ہوئے تھے۔ بحرین ایک ایسا ملک ہے، جہاں احتجاج کی اجازت ملنا مشکل ہے لیکن اسرائیل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مارچ کے دوران پولیس کی نفری بھی موجود رہی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ مظاہرے جو پورے مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے مظاہروں کی عکاسی کرتے ہیں۔

بہت ہو گیا، قطری امیر غزہ تنازعے پر برہم

مصر، جس کے اسرائیل کے ساتھ دہائیوں سے تعلقات ہیں، وہاں بھی مختلف شہروں اور جامعات میں مظاہرے ہوئے اور ریلیاں نکالی گئیں جب کہ کچھ مقامات پر اسرائیل کے خلاف نعرے بھی لگائے گئے۔

 ج ا/ ص ز/ع ا (اے ایف پی، اے پی)