1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کی پہلی حجاب پوش مسلم رکن پارلیمان

8 مارچ 2020

رواں ہفتے ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں اسرائیل کی عرب مسلم اقلیتی آبادی نے ایک حجاب پوش خاتون کو منتخب کر کے ملکی پارلیمان میں پہنچا دیا۔ وہ اسکارف پہننے والی پہلی مسلم خاتون رکنِ پارلیمان ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Z3EY
Iman Khatib Yassin israelisch-arabische Politikerin
تصویر: Getty Images/AFP/A. Gharabli

55 سالہ ایمان یاسین خطیب اسرائیل کی 120 رکنی پارلیمان (کنیسٹ) میں جوائنٹ لسٹ کولیشن کے دیگر 15 ارکان کے ساتھ پہنچی ہیں۔

اس پارٹی کو اسرائیل میں بسنے والی عرب آبادی (جو ملک کی کل آبادی کا تقریباﹰ 21 فیصد بنتی ہے) کے سب سے زیادہ ووٹ پڑے۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں عرب شہری اقلیت میں ہیں، جو نسلی طور پر فلسطینی ہیں مگر ان کے پاس اسرائیلی شہریت ہے۔

عرب لیگ نے ٹرمپ کا اسرائیل فلسطین امن منصوبہ مسترد کر دیا

اسرائیلی شہریوں کو پہلی بار سعودی عرب کے بزنس دوروں کی اجازت

خطیب چار بچوں کی والدہ ہیں اور قومی سیاست میں داخلے سے قبل ایک کمیونٹی سینٹر میں بہ طور مینیجر خدمات انجام دے چکی ہیں۔

خطیب نے اپنی انتخابی فتح کے بعد ناصرہ کے علاقے میں جشن منایا جہاں مقامی افراد نے ان کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ خطیب کا کہنا ہے، ''توجہ کا مرکز حجاب کسی صورت نہیں ہونا چاہیے بلکہ زیادہ اہم یہ ہےکہ اس کے اندر کون اور کیا ہے۔ یعنی بات صلاحیت کی ہونا چاہیے جو کمیونٹی کو جدت کی جانب لے جانے کے امکانات سے پُر ہے۔‘‘

اسرائیل کی نو ملین کی آبادی کا بڑا حصہ یہودیوں پر مشتمل ہے اور وہاں خطیب کے اسکارف پہننے کے معاملے پر متعدد مواقع پر اسلام مخالف بیانات بھی سنائی دیتے رہے تھے۔ خطیب نے کہا، ''مجھے زندگی بھر حجاب کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔  مگر میں چاہتی ہوں کہ لوگ حجاب سے آگے بھی دیکھیں۔‘‘

یہ بات بھی اہم ہے کہ اسرائیل کے عرب نسل کے شہریوں میں بڑی تعداد تو مسلمانوں کی ہے، مگر ان میں مسیحی اور دروز مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔

اسرائیل کے متعدد عرب شہری معاشرتی سطح پر امتیازی رویوں کا شکوہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فقط عرب ہونے کی بنا پر صحت، تعلیم اور ہاؤسنگ کے شعبوں میں مسائل کا سامنا رہا ہے اور اس کا الزام وہ وزیر اعظم نیتن یاہو پر عائد کرتے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں زیادہ تر عرب شہریوں کی جانب سے ووٹ نیتن یاہو کی مخالفت میں ڈالا گیا۔ دوسری جانب نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اعلان کر چکی ہے کہ وہ اسرائیل کے عرب شہریوں سے جڑے امور کے لیے چار اعشاریہ چار ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کا منصوبہ رکھتی ہے۔

حالیہ انتخابات میں عرب نسل کے اسرائیلی شہریوں میں ووٹرز ٹرن آؤٹ قریب 65 فیصد رہا، جو گزشتہ بیس برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ان انتخابات میں نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور مرکزیت پسند بلیو اینڈ وائٹ پارٹی ملک کی دو بڑی جماعتیں رہیں۔ تاہم خطیب کی پارٹی اور دیگر جماعتوں کا انتخابی اتحاد ان انتخابات میں تیسرے نمبر پر رہا۔ خطیب کی جماعت اسرائیل کے عرب شہریوں کے لیے زیادہ مراعات کے علاوہ فلسطینی ریاست کے قیام کی بھی حامی ہے۔