1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستاسرائیل

اسرائیل نے شاید بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی، امریکہ

11 مئی 2024

بائیڈن انتظامیہ کے مطابق غزہ کی جنگ میں ممکنہ طور پر اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی گئی اور امریکہ کی جانب سے مہیا کردہ ہتھیار بھی استعمال ہوئے۔

https://p.dw.com/p/4fjyV
Israel Gaza-Krieg
تصویر: Amir Cohen/REUTERS

بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے جمعے کی شام کہا گیا کہ امریکہ کے مہیا کردہ ہتھیار ممکنہ طور پر غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق جنگی حالات کی وجہ سے یہ جانچنا مشکل ہے کہ کن کن فضائی حملوں میں امریکی ہتھیاروں کے ذریعے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔

 

امریکی حکام کے مطابق ایسے 'قابل بھروسا‘ شواہد موجود ہیں کہامریکی اتحادی اسرائیل نے حماس کے خلاف جاری کارروائیوں میں عام شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ غزہ پٹی میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری اسرائیلی عسکری کارروائیوں کے اعتبار سے اب تک کا یہ سب سے سخت امریکی بیان ہے۔

جمعے کے روز امریکی کانگریس میں پیش کردہ حکومتی رپورٹ کی سمری جاری کی گئی، جس میں امریکی حکومت کا یہ نقطہ نظر سامنے آیا ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں چوں کہ غزہ میں ایسے کسی حملے کی باقاعدہ نشان دہی نہیں کی گئی، اس لیے امریکی حکومت کے پاس اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی پر قدغن لگانے کے لیے کافی اشارہ موجود نہیں۔

Nahostkonflikt | Rafah
غزہ میں سات ماہ سے اسرائیلی عسکری کارروائیاں جاری ہیںتصویر: Abed Rahim Khatib/dpa/picture alliance

امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی مرتب کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں سات ماہ سے جاری عسکری کارروائیوں میں 35 ہزار فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

اس رپورٹ میں گو کہ غزہ میں امریکی ہتھیاروں سے کیے گئے حملوں کی کوئی واضح تفصیل تو نہیں بتائی گئی، تاہم یہ کہا گیا ہے کہ اسرائیل امریکی ساختہ ہتھیاروں پر 'غیرمعمولی تکیہ‘ کر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 'قابل بھروسا‘ شواہد ہیں کہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے یہ ہتھیار بین الاقوامی ہیومینیٹیرین قوانین میں طے کردہ ضابطوں کے تحت استعمال نہیں کیے اور عام شہریوں کے تحفظ کے اعتبار سے 'عمدہ راستوں‘ کا خیال نہیں رکھا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ''اسرائیلی فوج کے پاس تجربہ، ٹیکنالوجی اور معلومات موجود ہیں، جن کے ذریعے عام شہری ہلاکتوں کو کم تر کیا جا سکتا تھا، تاہم زمینی حقائق بہ شمول وسیع تر عام شہری ہلاکتوں کو سامنے رکھا جائے، تو سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا اسرائیلی دفاعی افواج واقعی تمام معاملات میں اس بات کا خیا ل رکھ رہی ہیں؟

عام شہریوں پر حملوں کے الزامات

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی ایسی ایک درجن سے زائد فضائی کارروائیوں میں شامل رہا ہے، جو جنگی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایک غیر سرکاری پینل کی ایک رپورٹ میں بھی کہا گیا تھا کہ ایسے 'قابل اعتبار‘ شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل نے جنگی اور ہیومینیٹیرین قوانین کی خلاف ورزی کی اور امدادی قافلوں، طبی کارکنوں، ہسپتالوں، صحافیوں، اسکولوں اور مہاجرین کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ غزہ میں 31 اکتوبر کو ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ پر کیے گئے ایک اسرائیلی حملے میں ایک سو چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ یہ عمارت کسی بھی طرح عسکری ہدف کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔

دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکی اور بین الاقوامی قوانین کی مکمل پاسداری کر رہا ہے اور ایسے تمام الزامات کی تفتیش میں مصروف ہے۔

غزہ کی جنگ: تمام نگاہیں قاہرہ میں جاری مذاکرات پر

رفح کے مزید علاقے خالی کرانے کا اسرائیلی حکم

اسرائیل نے غزہ پٹی کے شہر رفح کےجنوب مشرقی حصے کو خالی کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ہفتے کے روز اس اسرائیلی اقدام کو رفح میں وسیع ہوتے اسرائیلی آپریشن کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ اور عالمی برادری متعدد مرتبہ خبردار کر چکے ہیں کہ اسرائیل رفح میں بڑی عسکری کارروائی سے اجتناب برتے کیوں کہ اس شہر میں غزہ پٹی کی تقریباﹰ نصف آبادی پناہ لیے ہوئے ہے، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ رفح میں اسرائیلی فوجی کارروائی ضرور کی جائے گی۔

Nahoistkonflikt | Rafah
امریکہ اسرائیل کو رفح میں عسکری کارروائی سے اجتناب کا مشورہ دے چکا ہےتصویر: Ali Jadallah/Anadolu/picture alliance

اس تازہ اسرائیلی اقدام سے رفح میں دو مہاجر بستیاں متاثر ہوئیں ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج کی جانب سے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں موجود عام شہری فوری طور پر بحیرہ روم کی جانب واقع ساحلی علاقے المواسی کی طرف چلے جائیں۔

ع ت / م م، ا ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)