اسرائیل اور فلسطینی پھر سے تصادم کی راہ پر
29 اپریل 2014امن مذاکرات کی اس ناکامی کے بعد اب دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف پھر سے تصادم کی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں۔
اُنتیس اپریل کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے چند ہی روز پہلے فلسطینی تنظیموں حماس اور فتح کے سربراہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ وہ فلسینی انتظامیہ میں شامل علاقوں پر مل کر حکومت کریں گے۔ یروشلم حکومت نے یہ کہتے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا کہ امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم حماس کے ساتھ اتحاد کا یہ فیصلہ اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہے۔ فلسطینیوں کے اتحاد کی طرح یہ اسرائیلی اعلان بھی محض علامتی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ نو ماہ کی ناکام سفارتی کوششوں کے بعد پہلے ہی ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ فریقین کسی حتمی سمجھوتے کی منزل تک پہنچ سکیں گے۔
تل ابیب میں قائم انسٹیٹیوٹ برائے قومی سلامتی سے وابستہ محقق مارک ہیلر اسرائیل کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کو درست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جب دونوں میں سے کوئی ایک فریق مذاکرات کا مخالف ہو۔‘‘
ماہر سیاسیات ہیلر کا اشارہ حماس کی جانب تھا۔ تاہم ہیلر مزید مذاکرات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیتے:’’اگرچہ مثبت توقعات وابستہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تاہم حماس کو بھی جانچ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
ایک غیر سرکاری فلسطینی این جی او ’بادل‘ سے وابستہ رانیہ مادی کے خیال میں مزید مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ اب تک کے مذاکرات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا، یہودی بستیوں میں توسیع بھی جاری ہے، فلسطینیوں کو بدستور گرفتار بھی کیا جا رہا ہے اور فلسطینیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوا:’’مجھے کوئی ایک وجہ بتائیے، جسے سامنے رکھتے ہوئے فلسطینی اپنی خود مختار انتظامیہ پر مزید مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالیں۔ ایسی کوئی وجہ ہے ہی نہیں۔‘‘
تاہم قانونی امور کی ماہر مادی کے خیال میں دونوں فلسطینی گروپوں کے اتحاد سے اسرائیل کو ضرور فائدہ ہو سکتا ہے:’’اگر حماس فتح کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکومت پر اتفاق کر لیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خود مختار انتظامیہ اور اسرائیل کے مابین اب تک ہونے والے تمام فیصلوں کی بھی پاسداری کرنے کی پابند ہو گی۔‘‘
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین تنازعہ اب ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ موضوعات پرانے ہی رہیں گے تاہم اس میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے والے ہتھیار ذرا مختلف ہوں گے۔