1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل: افریقی تارکین وطن خوف کے سائے میں

Adnan ishaq29 مئی 2012

ایک طویل عرصے تک بہت کم ہی تارکین وطن اسرائیل کا رخ کرتے تھے۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران براعظم افریقہ سے بڑے پیمانے پر لوگ اسرائیل پہنچے ہیں۔

https://p.dw.com/p/153vE
تصویر: picture-alliance/dpa

آج کل اسرائیل میں اریٹریا اور سوڈان سمیت دیگر افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والےساٹھ ہزار پناہ کے متلاشی افراد گرما گرم بحث کا مرکز ہیں۔ اسرائیلی وزیر داخلہ ایلی یِشائی کہتے ہیں کہ تارکین وطن کی اکثریت نے انسانی نہیں بلکہ معاشی وجوہات کی بناء پر اسرائیل کا رُخ کیا ہے۔ وہ اُنہیں جبری طور پر واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ پارلیمان میں ایلی یِشائی کا کہنا تھا ’’دُنیا میں کسی بھی ملک میں انسانی وقار کا خیال اُس طرح سے نہیں رکھا جاتا، جس طرح سے اسرائیل میں رکھا جاتا ہے۔ تارکینِ وطن کو جبراً واپس بھیجنے کی ہر کوشش سپریم کورٹ میں جا کر اٹک جاتی ہے۔ دنیا کی کسی عام ریاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر مجھے کوئی استثنیٰ رکھے بغیر تمام وسائل مہیا کیے جائیں تو ایک سال کے اندر اندر ایک بھی تارک وطن اسرائیل میں نہیں ہو گا۔ خدا کے فضل سے ہم اسرائیلی ریاست کی یہودی شناخت اور صیہونی خواب کو برقرار رکھیں گے۔‘‘

یِشائی کہتے ہیں کہ اسرائیلی عوام کی ایک بڑی تعداد اُنہی کی طرح سوچتی ہے۔ اس کی ایک وجہ آبادی کے ایک بڑے طبقے میں پایا جانے والا خوف ہے۔ تل ابیب کے جنوب میں ابھی حال ہی میں براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ اس میں تقریباً ایک ہزار افراد نے تارکین وطن کو اسرائیل سے بے دخل کرنے کے حق میں نعرے لگائے۔ لیکوڈ پارٹی کی رکن اسمبلی میِریِ ریگو بھی اس میں شریک تھیں اور انہوں نے کہا کہ سوڈان سے آنے والے تارکین وطن اسرائیلی معاشرے کے لیے کینسر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے اِکا دُکا واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں تارکین وطن آبروریزی اور ڈاکے جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہوئے۔ وزارت داخلہ کے ہاں پہنچ کر اِن اکا دُکا واقعات کو یہ رُخ دے دیا جاتا ہے کہ ’اکثر‘ افریقی تارکین وطن جرائم پیشہ ہیں۔ اس لیے اُن سب کو گرفتار کر کے واپس اُن کے وطن بھیج دیا جانا چاہیے۔‘

Israel Tel Aviv Proteste Flüchtlinge aus Afrika
اسرائیل میں تارکین وطن کے حق اور مخالفت دونں میں مظاہرے ہوئے ہیںتصویر: dapd

اس دوران اسرائیل آنے والے افریقی تارکین وطن کی تعداد کئی سو سے ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم ابھی بھی مشرق وسطی کے مہاجرین کی تعداد افریقی تارکین وطن سے زیادہ ہے۔ اسرائیلی حکومت نہ تو رہائشی اجازت نامے جاری کرتی ہے اور نہ ہی جنیوا کنونشن کے تحت سیاسی پناہ کی درخواستیں قبول کرتی ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ کہیں تارکین وطن کی موجودگی سے اسرائیل کا یہودی تشخص مجروح نہ ہو۔

T. Teichmannn / ai / hk